فیس بک یا دیگر شوشل
میڈیا میں ملحدوں سے اکثر جو سوالات پوچھے جاتے ہیں انکے جوابات۔
ایسے سوالات اور انکے جوابات پہلے بھی لکھے جا چکے ہیں چنانچہ کچھ نئے احباب بھی ہیں جنہوں نے پہلے نہیں پڑھا وہ اب پڑھ لیں گے۔میری کوشش ہو گی کہ سوالوں کے مختصر جوابات ہوں۔
چنانچہ میں نے انکو یکجا کر کے تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو شروع کرتے ہیں۔۔۔۔
ایسے سوالات اور انکے جوابات پہلے بھی لکھے جا چکے ہیں چنانچہ کچھ نئے احباب بھی ہیں جنہوں نے پہلے نہیں پڑھا وہ اب پڑھ لیں گے۔میری کوشش ہو گی کہ سوالوں کے مختصر جوابات ہوں۔
چنانچہ میں نے انکو یکجا کر کے تھوڑی بہت ترمیم کے ساتھ لکھا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔تو شروع کرتے ہیں۔۔۔۔
سوال نمبر 1: اکثر پوچھا جاتا ہے کہ الحاد کیا ھے؟
جواب : کئی لوگ اسے ایک مذہب مانتے ہیں جوکہ سراسر غلط ہے۔الحاد
مذہب کا رد ہے۔ ہم اس بات کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ غور و فکر ، تجزیہ، تجربہ ،
مشاہدہ ، سوچ سمجھ اور عقل کی کسوٹی پر پرکھتے ہوئے جو سوالات مذہب کے خلاف اٹھائے
جاتے ہیں اسکا نام الحاد ہے یعنی غور و فکر ، سوچ سمجھ ، تجزیہ ، تجربہ ، مشاہدہ
اور عقل کا استعمال کرنے کا دوسرا نام الحاد ھے۔
سوال نمبر 2 : الحاد کی کوئی کتاب نہیں ہے تو یہ اپنی زندگی کیسے
گزارتے ہیں اور انکی زندگی کا مقصد کیا ہے؟
جواب : الحاد اپنے معاملاتِ زندگی سماجی اصولوں ، مروجہ قوانین اور
عقل و خرد کی روشنی میں گزارتے ہیں۔
الحاد اپنی زندگی کا مقصد خود طے کرتے ہیں۔کسی قدیم اور بوسیدہ کتاب میں زندگی کا مقصد تلاش نہیں کرتے۔
مختلف الحادیوں کی زندگی کا مقصد مختلف ہو سکتا ہے۔مثلاً اعلی' تعلیم حاصل کرنا ، کوئی فلاحی ادارہ قائم کرنا ، صحافی بن کر معاشرتی ناانصافی پر آواز اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی یاد رہے کہ سماجی اور معاشرتی قوانین اور انسانی حقوق کا عالمی منشور انسان کی ہزاروں سال کے ارتقائی مراحل طے کر کے موجودہ حالت تک پہنچے ہیں جو ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہیں۔الحاد نے بھی سیکولرازم کے نام پر ضابطہ دیا ہے ، کمیونزم کا ضابطہ بھی الحاد کی دین ہے اور اس سے پہلے ہندوستان میں مہاتما بدھا کی تعلیمات چین میں کنفیوشس کی تعلیمات ، جین مت کی تعلیمات وغیرہ بھی الحاد کے ضابطہ حیات کہلائیں گے کیونکہ یہ ضابطہ وحی کے نام پر آسمان سے نازل نہیں ہوئے ، بلکہ مہاتما بدھا اور کنفیوزشس وغیرہ نے اپنی عقل سے انسانی حالات کے تحت یہ ضابطے تشکیل دئیے۔الحادی ضابطہ اور مذہبی ضابطہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہبی ضابطہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یہ جمود کی سی کیفیت ہوتی ہے جبکہ الحاد معاشرے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غور و خوص اور اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اصولوں میں ردوبدل کر سکتا ہے۔یعنی الحاد کے اصولوں میں جمود کی کیفیت نہیں ہے۔ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
الحاد اپنی زندگی کا مقصد خود طے کرتے ہیں۔کسی قدیم اور بوسیدہ کتاب میں زندگی کا مقصد تلاش نہیں کرتے۔
مختلف الحادیوں کی زندگی کا مقصد مختلف ہو سکتا ہے۔مثلاً اعلی' تعلیم حاصل کرنا ، کوئی فلاحی ادارہ قائم کرنا ، صحافی بن کر معاشرتی ناانصافی پر آواز اٹھانا وغیرہ وغیرہ۔
یہ بھی یاد رہے کہ سماجی اور معاشرتی قوانین اور انسانی حقوق کا عالمی منشور انسان کی ہزاروں سال کے ارتقائی مراحل طے کر کے موجودہ حالت تک پہنچے ہیں جو ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ ہیں۔الحاد نے بھی سیکولرازم کے نام پر ضابطہ دیا ہے ، کمیونزم کا ضابطہ بھی الحاد کی دین ہے اور اس سے پہلے ہندوستان میں مہاتما بدھا کی تعلیمات چین میں کنفیوشس کی تعلیمات ، جین مت کی تعلیمات وغیرہ بھی الحاد کے ضابطہ حیات کہلائیں گے کیونکہ یہ ضابطہ وحی کے نام پر آسمان سے نازل نہیں ہوئے ، بلکہ مہاتما بدھا اور کنفیوزشس وغیرہ نے اپنی عقل سے انسانی حالات کے تحت یہ ضابطے تشکیل دئیے۔الحادی ضابطہ اور مذہبی ضابطہ میں بنیادی فرق یہ ہے کہ مذہبی ضابطہ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی یہ جمود کی سی کیفیت ہوتی ہے جبکہ الحاد معاشرے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے غور و خوص اور اپنی عقل کا استعمال کرتے ہوئے اپنے اصولوں میں ردوبدل کر سکتا ہے۔یعنی الحاد کے اصولوں میں جمود کی کیفیت نہیں ہے۔ان میں تبدیلی کی جاسکتی ہے۔
سوال نمبر 3 : کوئی دہریہ یا الحاد آج تک یہ ثابت نہیں کر پایا کہ
خدا نہیں ہے تو پھر وہ کن بنیادوں پر خدا کے انکاری ہیں؟
جواب : عدم کو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔جو دعوی' کرتا ہے اس کو ثابت
کرنا مدعی کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اگر میں یہ دعوی کروں کہ میں ایک مکا مار کر یہ بلڈنگ گرا سکتا ہوں تو اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا میری ذمہ داری ہو گی، لیکن اگر میں دوسروں سے یہ تواقع کروں کہ وہ یا تو میرے اس دعوے کو رد کرے یا پھر میری بات پر ایمان لے آئے تو یہ غیر مناسب اور غیر منطقی بات ہو گی۔مختصر یہ کہ وہ دعوے جو بغیر ثبوتوں کے کئیے جائیں ، انکو رد کرنے کے لئے بھی کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اگر میں یہ دعوی کروں کہ میں ایک مکا مار کر یہ بلڈنگ گرا سکتا ہوں تو اپنے اس دعوے کو ثابت کرنا میری ذمہ داری ہو گی، لیکن اگر میں دوسروں سے یہ تواقع کروں کہ وہ یا تو میرے اس دعوے کو رد کرے یا پھر میری بات پر ایمان لے آئے تو یہ غیر مناسب اور غیر منطقی بات ہو گی۔مختصر یہ کہ وہ دعوے جو بغیر ثبوتوں کے کئیے جائیں ، انکو رد کرنے کے لئے بھی کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔
سوال نمبر 4 : جب موت کے بعد زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے تو
انسان نیکی کیوں کرے اور برائی سے دور کیوں رہے؟
جواب : اچھائی اور برائی کا پیمانہ ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ
ہے۔ہماری اخلاقیات ہمارے ماحول ، ہماری نفسیات ، والدین کی تربیت معاشرے سے جڑی
ہوتی ہیں جس میں مذہب کا کوئی اتنا بڑا کردار نہیں ہوتا۔مذہب کا اگر واقعی کوئی
کارنامہ ہے تو صرف اتنا ہے کہ ہزاروں سال پہلے سے آرہے سماجی تنازعات کا حل ڈھونڈنے
کے لئے انسانوں نے جو قوانیں اپنے ماحول اور معاشرے کے مطابق بنائے مذہب نے ان میں
معمولی ترمیم و اضافے کے ساتھ انہیں مقدس شکل دے دی۔۔۔لیکن مشکل یہ ہوئی کہ مذہب
نے انہیں دائمی اور ہر دور کے لئے جامد قرار دے دیا۔جب کہ جیسے جیسے انسان سماجی
ترقی کے مراحل طے کرتا گیا ، بہتر سے بہتر قوانین وجود میں آتے رہے اور ہنوز یہ
سلسلہ جاری ہے۔ایک باشعور شخص صرف جنت و دوزخ کے سبب اچھائی اور برائی کا فیصلہ
نہیں کرتا بلکہ وہ اسے معاشرے کے اجتماعی مفاد اور آفاقی و مثبت قدروں کی روشنی
میں طے کرتا ہے۔
ہم یہ اصول بھی اپنا سکتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ساتھ لوٹ مار کرے ، ہمیں نقصان پہنچائے ، ہمیں بلاوجہ تنگ کرے ، ہمارے ساتھ دھوکا کرے یا ہمیں مارا جائے یا ہمیں اذیت ناک بلا وجہ کی تکلیف دی جائے ، یا بلاوجہ ہمیں نفسیاتی تنگ کیا جائے۔جب ہم یہ سب اپنے لئے نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ساتھ ایسا برتاٶ کرے تو دوسرے انسانوں کے لئے بھی ہمیں یہ اصول اپنانا پڑے گا۔ایسا کرنے سے معاشرہ امن و سکون میں رہتا ہے۔یہ احساس کی بات ہوتی ہے۔
ہم یہ اصول بھی اپنا سکتے ہیں کہ ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ساتھ لوٹ مار کرے ، ہمیں نقصان پہنچائے ، ہمیں بلاوجہ تنگ کرے ، ہمارے ساتھ دھوکا کرے یا ہمیں مارا جائے یا ہمیں اذیت ناک بلا وجہ کی تکلیف دی جائے ، یا بلاوجہ ہمیں نفسیاتی تنگ کیا جائے۔جب ہم یہ سب اپنے لئے نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے ساتھ ایسا برتاٶ کرے تو دوسرے انسانوں کے لئے بھی ہمیں یہ اصول اپنانا پڑے گا۔ایسا کرنے سے معاشرہ امن و سکون میں رہتا ہے۔یہ احساس کی بات ہوتی ہے۔
سوال نمبر 5 : کچھ مسلمان حضرات خدا کو ثابت کرنے کے لئے یہ سوال
بھی کرتے ہیں کہ کیا تم نے ہوا کو دیکھا ہے؟ عقل کو دیکھا ہے؟ اپنے اجداد کو دیکھا
ہے؟ چنانچہ تمہارے پاس ان چیزوں کی موجودگی کے کیا ثبوت ہیں؟
جواب : انسان مشاہدہ اور تجربہ کر سکتا ہے۔انسان کے اندر حواس خمسہ
جیسی صلاحیتیں موجود ہیں۔
اگر کہیں دھواں اٹھتا ہے تو ہم دور سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ضرور اس جگہ پر آگ لگی ہو گی۔اسی طرح ہوا جب چلتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا جن محسوسات کا تجربہ ہوتا ہے وہ ہمارے حواس خمسہ بتا دیتے ہیں کہ ہوا چل رہی ہے۔ہمارے اجداد کی موجودگی کا ثبوت خود ہمارا وجود ہے۔عقل کی موجودگی ، عقل والے کام کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ان چیزوں کی موجودگی کو قبول ہم اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کرتے ہیں ، نہ کہ یہ ہمارے اندھے ایمان و یقین کا حصہ ہیں۔
اگر کہیں دھواں اٹھتا ہے تو ہم دور سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ضرور اس جگہ پر آگ لگی ہو گی۔اسی طرح ہوا جب چلتی ہے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی ہم مشاہدہ کرتے ہیں یا جن محسوسات کا تجربہ ہوتا ہے وہ ہمارے حواس خمسہ بتا دیتے ہیں کہ ہوا چل رہی ہے۔ہمارے اجداد کی موجودگی کا ثبوت خود ہمارا وجود ہے۔عقل کی موجودگی ، عقل والے کام کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ان چیزوں کی موجودگی کو قبول ہم اپنے مشاہدے اور تجربے کی روشنی میں کرتے ہیں ، نہ کہ یہ ہمارے اندھے ایمان و یقین کا حصہ ہیں۔
سوال نمبر 6 : کچھ مسلمان یہ سوال کرتے ہیں کہ اگر انسان کا ارتقاء
بندروں سے ہوا ہے تو اب تک بندر کیوں ہیں؟ وہ ارتقاء کرکے انسان کیوں نہیں بن گئے؟
جواب : ویسے یہ سوال ارتقاء سے متعلق ہے جس کا الحاد سے کوئی تعلق
نہیں ہے۔انسان کو بائیولوجی پڑھنی چاہئے۔ہر انسان کو اپنے علم میں اضافہ کرنا
چاہئے۔سائنس ایک علیحدہ علم ہے اور یہ تصور بنیادی طور پر غلط ہے کہ سائنس کی کہی
ہوئی ہر بات الحاد یا دہریوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ بہرحال پھر بھی اسکا جواب یہ ہے
کہ انسان کا ارتقاء بندروں سے نہیں ہوا۔ آج کل جو بندر موجود ہیں (خاص طور پر
چمپنزی اور بونوبو بسل کے بندر) ان کا اور انسان کا ارتقاء ایک ایسے ape
کی نسل سے ہوا ہے جو اب ناپید ہے۔ اس نسل کی کچھ آبادی افریقہ کے میدان میں باقی
آبادی سے کٹ گئی اور آہستہ آہستہ ارتقاء کرتی ہوئی لاکھوں سالوں میں موجودہ انسان
کی شکل اختیار کرگئی جبکہ باقی نسل ارتقاء کرتے کرتے موجودہ دور کے بندر بن گئے۔
ان دونوں آبادیوں پر فطری چناؤ کے دباؤ مختلف تھے جس وجہ سے ان کا ارتقاء مختلف
طریقے سے ہوا۔
اگلے لاکھوں کروڑوں سالوں میں یہ بندر کس طرح سے ارتقاء پذیر ہوں گے اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ مستقبل میں ان پر چناؤ کے کیسے دباؤ ہوں گے۔ چونکہ اس بات کی پیش گوئی ناممکن ہے کہ لاکھوں سال بعد کسی بھی جانور کی نسل پر کس قسم کے سیلیکشن پریشرز ہوں گے اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ آج سے لاکھوں سال بعد یہ بندر کس قسم کے جانور ہوں گے۔ یہ بات البتہ کہی جاسکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ہیئت بدلتی رہے گی۔
مختصر یہ کہ دہریت یا الحاد کو ثابت کرنے کے لئے آپکو سائنس کو غلط ثابت کرنے کی بجائے خدا کے وجود کا کوئی ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔
اگلے لاکھوں کروڑوں سالوں میں یہ بندر کس طرح سے ارتقاء پذیر ہوں گے اس کا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ مستقبل میں ان پر چناؤ کے کیسے دباؤ ہوں گے۔ چونکہ اس بات کی پیش گوئی ناممکن ہے کہ لاکھوں سال بعد کسی بھی جانور کی نسل پر کس قسم کے سیلیکشن پریشرز ہوں گے اس لیے یہ کہنا ناممکن ہے کہ آج سے لاکھوں سال بعد یہ بندر کس قسم کے جانور ہوں گے۔ یہ بات البتہ کہی جاسکتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی ہیئت بدلتی رہے گی۔
مختصر یہ کہ دہریت یا الحاد کو ثابت کرنے کے لئے آپکو سائنس کو غلط ثابت کرنے کی بجائے خدا کے وجود کا کوئی ثبوت فراہم کرنا ہو گا۔
سوال نمبر 7 : مسلمان یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ سائنس آج تک ایک
مچھر نہیں بنا سکی ، کائنات یا انسان کیا خاک بنائے گی؟
جواب : سائنس نے کلوننگ کے ذریعے مچھر مکھی سے کہیں زیادہ بڑے
جاندار بھیڑ وغیرہ انسانوں کے سامنے بنا کر دیکھا دیے۔کیا خدا انسانوں کے سامنے
بنا کر دیکھا سکتا ھے؟
جب مکھی اور مچھر کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ بھی بنا لئیں جائے گے۔
جب مکھی اور مچھر کی ضرورت پیش آئے گی تو وہ بھی بنا لئیں جائے گے۔
سوال نمبر 8 : یہ بھی سوال کیا جاتا ہے کہ سائنس کے پاس ہر سوال کا
جواب نہیں ہے جب کہ مذہب کے پاس ہر سوال کا جواب موجود ہے۔
جواب : آپکی بات بجا ہے کہ سائنس کے پاس ہر سوال کا جواب موجود
نہیں ہے۔لیکن سائنس نے کبھی اسکا دعوی بھی نہیں کیا۔انسان کے پاس اس کائنات کی اصل
معلومات نہیں تھیں اور انسانی دماغ متجسس ہے ، سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش
کرتا رہتا ہے۔مذہب نے اسکی اس کمزور نبض پر ہاتھ رکھا اور اسے کچھ معلومات دے دی
لیکن افسوس کہ ان میں بیشتر غلط ثابت ہو چکی ہیں۔سائنس وہ بچہ ہے جو کائنات کی اصل
معلومات خود حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک طویل عمل ہے۔مذہب کی طرح نہیں کہ ہر
بات کا بغیر سوچے سمجھے اور عقل کو ایک سائیڈ پر رکھ کر جواب دے دیا۔
سوال نمبر 9 : کچھ اگناسٹک قسم کے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب
سائنس کے پاس ہر چیز کا علم نہیں ہے تو خدا کی موجودگی کا امکان بھی حتمی طور پر
رد نہیں کیا جا سکتا۔کیا پتا مستقبل میں سائنس بھی خدا کی موجودگی ثابت کر دے؟
جواب : اس دلیل کے جواب میں کہا جا سکتا ہے کہ کیونکہ سائنس کے پاس
ہر چیز کا علم نہیں۔۔۔تو ممکن ہے کہ مستقبل میں سینٹاکلاز ، سپر مین ، اسپائیڈر
مین ، ڈوری مون اور دیگر انسانوں کے فرضی کرداروں کا وجود بھی ثابت ہو جائے۔کل رات
میں نے دیکھا کہ آسمان سے آئی فون کی برسات ہو رہی تھی اور اس تصور کو صرف اس لئے
رد نہیں کیا جا سکتا۔۔کیوں کہ کیا پتا مستقبل میں سائنس میرے اس تصور کو درست
تسلیم کر لے۔
سوال نمبر 10 : اگر خدا نہیں ہے تو انسانوں کی اکثریت خدا پر یقین
کیوں رکھتی ہے؟
جواب : سچائی کو ثابت کرنے کے لئے اکثریت کی نہیں بلکہ ثبوتوں کی
ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً پانچ سو سال پہلے ایک وقت ایسا بھی گزرا ہے جب ایک شخص نکولس
کوپرنکس نے ایک کتاب لکھی اور دنیا کو ایک حقیقت بتائی کہ سورج زمین کے گرد نہیں
گھومتا بلکہ زمین اور دیگر سیارے سورج کے گرد گھومتے ہیں۔اس شخص کے بعد ہی برونو
اور گیلیلیو آئے تھے اور یہ لوگ بالکل تنہا تھے۔پوری دنیا ایک طرف اور اپنے زمانے
میں یہ لوگ تنہا ایک طرف ہوتے تھے۔ان کے خلاف چرچ اور دیگر مذاہب کے علاوہ پوری
دنیا کے عوام و خواص شامل تھے۔مگر یہ اکثریت مل کر بھی سورج کو زمین کے گرد گھمانے
سے قاصر رہی۔
چنانچہ اسی طرح دنیا کی اکثریت بھی اللہ یا خدا کو ماننے کے باوجود آج تک خدا کو ثابت نہیں کر پائی۔اور اس رزم گاہ میں ملحدین بالکل نکولس کوپرنکس ، برونو اور گیلیلیو کی طرح اکیلے ایک طرف کھڑے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا کے مذاہب اور عوام و خواص شامل ہیں ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک جھوٹ کو اگر سو لوگ بولیں تو سچ نہیں ہو جاتا ، نہ ہی سچ بولنے والے کسی اکیلے شخص کو جھوٹا قرار دیا جا سکتا ہے۔
چنانچہ اسی طرح دنیا کی اکثریت بھی اللہ یا خدا کو ماننے کے باوجود آج تک خدا کو ثابت نہیں کر پائی۔اور اس رزم گاہ میں ملحدین بالکل نکولس کوپرنکس ، برونو اور گیلیلیو کی طرح اکیلے ایک طرف کھڑے ہیں اور دوسری طرف پوری دنیا کے مذاہب اور عوام و خواص شامل ہیں ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ایک جھوٹ کو اگر سو لوگ بولیں تو سچ نہیں ہو جاتا ، نہ ہی سچ بولنے والے کسی اکیلے شخص کو جھوٹا قرار دیا جا سکتا ہے۔
سوال نمبر 11 : ملحد حضرات اسلام ہی کو کیوں ٹارگٹ بناتے ہیں؟
جواب : یہ سوال لاعلمی کا اظہار ہے۔ملحد کا ماضی میں جو مذہبی بیک
گراٶنڈ
ہوتا ہے اور جس مخصوص مذہبی حصار سے وہ باہر آتا ہے ظاہر ہے وہ اسی کو اپنے احتجاج
کا نشانہ بنائے گا کیوں کہ وہ اسی مخصوص مذہب و عقائد سے برگشتہ اور بیزار ہو کر
باہر نکلا ہے۔ایک ہندو ملحد ہندوازم کو ہی ٹارگٹ کرے گا کیوں کہ وہ اپنے صحائف اور
عقائد ہی سے برگشتہ ہو کر ملحد بنا ہے۔اسی طرح ایک عیسائی یا یہودی ملحد بھی اپنے
اپنے مذاہب کے لوپ ہولز کو ہی آشکار کرے گا اور انہیں ہی زیر بحث لائے گا۔
ہر ملحد اسی لئے اپنے اپنے مذہب پر تنقید کرتے ہیں کیوں کہ مذہبی لوگ دوسرے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور ملحد انکی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔
لہذا تمام مذہبی لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے الحاد کی بنیادی ہیئت کو سمجھیں پھر اس پر سوال کرے یا اسے تنقید کا نشانہ بنائیں۔ہم ہر مثبت تنقید کا احترام کرتے ہیں۔
ہر ملحد اسی لئے اپنے اپنے مذہب پر تنقید کرتے ہیں کیوں کہ مذہبی لوگ دوسرے لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں اور ملحد انکی حقیقت کو آشکار کرتا ہے۔
لہذا تمام مذہبی لوگوں کو چاہئے کہ وہ پہلے الحاد کی بنیادی ہیئت کو سمجھیں پھر اس پر سوال کرے یا اسے تنقید کا نشانہ بنائیں۔ہم ہر مثبت تنقید کا احترام کرتے ہیں۔
سوال نمبر 12 : ایک موبائل خودبخود نہیں بن سکتا ، ایک گھر خودبخود
نہیں بن سکتا ایک گاڑی خودبخود نہیں بن سکتی۔۔۔تو ملحد حضرات کے نزدیک یہ کائنات
خودبخود کیسے بن گئی؟
جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ جب موبائل ، گھر ، گاڑی وغیرہ
بخودبخود نہیں بن سکتے تو اللہ خودبخود کیسے بن گیا؟
اگر خودبخود سے مراد بغیر کسی علت و معلول کے لی جاتی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ یہ کائنات بغیر کسی علت و معلول کے وجود میں آ گئی کیونکہ یہ کائنات cause and effect کے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۔ہر چیز کے بننے کی کوئی نا کوئی علت ہوتی ہے۔اس لئے کوئی ملحد یعنی غور و فکر کرنے والا عقل رکھنے والا انسان یہ نہیں کہتا کہ یہ کائنات خودبخود بن گئی۔
اسی طرح خدا (جو کہ خود انسان ہی کا ایک خیالی تصور ہے ) بھی خودبخود نہیں بن سکتا اسکے بننے کی بھی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔
اگر خدا کے بننے کی کوئی وجہ نہیں ہے تو یہ بات ثابت کرنا ہو گی۔خیالی باتوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔
اگر خودبخود سے مراد بغیر کسی علت و معلول کے لی جاتی ہے تو یہ ناممکن ہے کہ یہ کائنات بغیر کسی علت و معلول کے وجود میں آ گئی کیونکہ یہ کائنات cause and effect کے قوانین میں جکڑی ہوئی ہے۔ہر چیز کے بننے کی کوئی نا کوئی علت ہوتی ہے۔اس لئے کوئی ملحد یعنی غور و فکر کرنے والا عقل رکھنے والا انسان یہ نہیں کہتا کہ یہ کائنات خودبخود بن گئی۔
اسی طرح خدا (جو کہ خود انسان ہی کا ایک خیالی تصور ہے ) بھی خودبخود نہیں بن سکتا اسکے بننے کی بھی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔
اگر خدا کے بننے کی کوئی وجہ نہیں ہے تو یہ بات ثابت کرنا ہو گی۔خیالی باتوں سے کچھ نہیں ہونے والا۔
سوال نمبر 13 : اگر یہ مان لیا جائے کہ کوئی بھی خدا نہیں ہے بلکہ
سب ادھر ہی ختم ہمیشہ کے لئے تو میری ناقص عقل میں سمجھ نہیں آتا کہ جن لوگوں کے
ساتھ نا انصافی ہوئی ، جو بے گناہ مارے گئے جو بھوک سے مر گئے جو کسی عورت کی عصمت
دری کی گئی ، جو کوئی بچہ مارا گیا دوسری طرف جانوروں کو مار دیا گیا۔۔۔ان سب کا
حساب کتاب کون کرے گا ان کو انصاف کب ملے گا کون دے گا۔کیا کوئی عقل یہ ماننے کو
تیار ھے کہ ان سب کے ساتھ جو سلوک ہوا اس کی کوئی پوچھ گچھ نہیں ھے۔
جواب : ہماری عقل تو یہ بھی نہیں مانتی کہ ایک قادر مطلق اوپر
بیٹھا مزے سے یہ سب دیکھ رہا ھے اور ایک دن کا انتظار کر رہا ھے جب حساب کتاب لے
گا۔اگر کوئی ھے تو وہ یہ سب ہونے ہی کیوں دے رہا ھے۔اسکا مطلب ھے کوئی نہیں ھے ،
اور نا کوئی حساب کتاب ھے۔موت خاتمہ ھے ہر چیز کا۔
سچ پوچھیں تو آخرت کی زندگی پہ یقین رکھنے والے معاشروں میں ہی جرم سب سے زیادہ ھے۔کیونکہ آخرت کا لولی پاپ استحصال کرنے والوں کے لئے بڑا فائدہ مند ھے۔
جانوروں کا ایک دوسرے پہ کیا جانے والا ظلم دیکھا ھے کبھی؟ کبھی دیکھا ھے کیسے ایک طاقتور جانور اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزور کی گردن مارتا ھے اور پھر اپنا لقمہ بناتا ھے۔انسان بھی ایک جانور ہی ھے جسے ارتقاء نے عقل نامی چیز باقی ماندہ جانوروں سے تھوڑی زیادہ دے دی۔۔
دراصل یہاں ایک جنگ جاری ہے۔۔۔بقا یعنی Survivall کی جنگ۔۔۔جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔۔۔ اب ہوا یوں کہ گزرتے وقت کے ساتھ انسان نے اپنے لئے کچھ قوانین اور اصول طے کئے جن کی بنیاد پہ معاشرے پروان چڑھے۔گو کہ انسان پوری طرح سے انہیں عملدرآمد نہ کر سکا لیکن آج بھی سوچ کی منازل طے کرتا انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں ھے۔۔۔
کل کے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے آج دنیا کے لئے معاشرتی اقدار کی ایک مثال بنے ہوئے ہیں۔۔دنیا کو ظلم و ستم ، کمزوروں کے استحصال جیسی لعنت سے پاک کرنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ھے انسان کو اور بلاشبہ خود ہی کرنا ھے بنا کسی مافوق الفطرت ہستی پہ انحصار کئے کہ وہ کوئی قانون وضع کرے۔
سچ پوچھیں تو آخرت کی زندگی پہ یقین رکھنے والے معاشروں میں ہی جرم سب سے زیادہ ھے۔کیونکہ آخرت کا لولی پاپ استحصال کرنے والوں کے لئے بڑا فائدہ مند ھے۔
جانوروں کا ایک دوسرے پہ کیا جانے والا ظلم دیکھا ھے کبھی؟ کبھی دیکھا ھے کیسے ایک طاقتور جانور اپنی طاقت کے بل بوتے پر کمزور کی گردن مارتا ھے اور پھر اپنا لقمہ بناتا ھے۔انسان بھی ایک جانور ہی ھے جسے ارتقاء نے عقل نامی چیز باقی ماندہ جانوروں سے تھوڑی زیادہ دے دی۔۔
دراصل یہاں ایک جنگ جاری ہے۔۔۔بقا یعنی Survivall کی جنگ۔۔۔جس کی لاٹھی اسکی بھینس۔۔۔ اب ہوا یوں کہ گزرتے وقت کے ساتھ انسان نے اپنے لئے کچھ قوانین اور اصول طے کئے جن کی بنیاد پہ معاشرے پروان چڑھے۔گو کہ انسان پوری طرح سے انہیں عملدرآمد نہ کر سکا لیکن آج بھی سوچ کی منازل طے کرتا انسان خوب سے خوب تر کی تلاش میں ھے۔۔۔
کل کے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے آج دنیا کے لئے معاشرتی اقدار کی ایک مثال بنے ہوئے ہیں۔۔دنیا کو ظلم و ستم ، کمزوروں کے استحصال جیسی لعنت سے پاک کرنے کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا ھے انسان کو اور بلاشبہ خود ہی کرنا ھے بنا کسی مافوق الفطرت ہستی پہ انحصار کئے کہ وہ کوئی قانون وضع کرے۔
سوال نمبر 14 : اگر یہی زندگی ہے ، کوئی خدا نہیں جو مرنے کے بعد
حساب کتاب کرے گا اور ہمارے اعمال کے بدلے میں ہمیں کوئی جنت یا دوزخ عطا کرے گا
تو پھر کیا یہ نا انصافی نہیں کہ وہ لوگ جنہوں نے لاکھوں لوگوں کا قتل عام کیا
جیسے ہٹلر یا سٹالن ہیں وہ سزا سے بچ جائیں گے؟ ایسے تمام مجرم جو بنا کوئی سزا
بھگتے مر گئے ، کیا یہ ان لاکھوں بے گناہ انسانوں سے جو ظلم و بربریت کا شکار ہوئے
زیادتی نہیں ہے؟
مذہب ہمیں ایک امید دیتا ھے کہ ایسے لوگ مرنے کے بعد اپنے کئیے کی سزا پائیں گے اور آخرت میں انھیں دردناک عذاب ملے گا۔
مذہب ہمیں ایک امید دیتا ھے کہ ایسے لوگ مرنے کے بعد اپنے کئیے کی سزا پائیں گے اور آخرت میں انھیں دردناک عذاب ملے گا۔
جواب : ہر معاشرہ اور ملک اپنے لوگوں کے لئے کچھ قوانین متعین اور
لاگو کرتا ھے جس کی پاسداری کرنا اس قوم کے ہر فرد پر لازم ہو جاتا ھے۔ایسا اس لئے
کیا جاتا ھے تاکہ معاشرے کے افراد آزادی اور امن کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں اور
کوئی فرد معاشرے میں بگاڑ پیدا نا کرے اگر کوئی ایسا کرے تو اسے مروجہ قوانین کے
مطابق سزا دی جاتی ھے۔دیکھنے میں آیا ھے کہ وہ قومیں جو قوانین کا احترام کرتی ہیں
جہاں قوانین کو سنجیدگی سے لیا جاتا ھے اور جہاں پوری طاقت سے قوانین کا احترام
کروایا جاتا ھے وہ قومیں وہ ملک ترقی اور خوشحالی کی طرف گامزن رہتے ہیں اس ملک کے
باشندے خوشحال زندگی بسر کرتے ہیں۔ایسے تمام مجرم جو معاشرے کے لئے خطرناک ہوتے
ہیں انہیں قوانین کے مطابق سزا دی جاتی ھے۔کسی مجرم کو اس لئے نہیں چھوڑ دیا جاتا
کہ اسے آخرت میں خدا خود سزا دے گا اگر ایسا ہو تو معاشرہ بدامنی کا گڑھ بن جاتا
ھے جس کا ہم پاکستانی اور دوسرے کئی ملکوں میں مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔
ایک قاتل کو ہم موت کی سزا دیتے ہیں۔کیا اس سے بڑی اور کوئی سزا ہو سکتی ھے کہ آپ کسی سے اسکا جینے کا حق چھین لیں؟ایک مرتا ہوا انسان زندگی پانے کے لئے اپنا سب کچھ دینے پر تیار ہو جاتا ھے۔کسی کی جان لینا ایک بہت بڑی سزا ھے جو ایک بڑے مجرم کو دنیا میں ہی ملتی ھے اور یہی قدرت کا انصاف ھے۔لیکن یہ انصاف یہیں ختم نہیں ہوتا قدرت ایسے شخص سے نہ صرف اس سے جینے کا حق چھین لیتی ھے بلکہ اسے تاریخ میں بھی عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ھے۔تاریخ میں ایسے لوگ برے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سزا سے ضرور بچ جاتے ہیں اور یہ نظام میں خامیوں کیوجہ سے ہوتا ھے جیسے جیسے انسان ارتقائی منازل طے کرتا جاتا ھے وہ ان خامیوں پر قابو پتا چلا جاتا ھے جس سے ہٹلر ، سٹالن ، اسامہ بن لادن ، خمینی ، نیرو ، چنگیز خان ، عدی امین ، vald dracula جیسے انسانیت کے مجرموں کا راستہ بند ہو جاتا ھے۔
یہ کہنا کہ مذہب ایسے لوگوں سے انصاف کرتا ھے غلط ھے ، اسلام کہتا ھے کہ اگر کوئی سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں چاہے وہ گناہ اور جرائم سمندروں سے بڑے ہی کیوں نہ ہوں۔اسی طرح عیسائیت میں اگر کوئی سچے دل سے Jesus کو اپنا savior مان لے تو اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہٹلر لاکھوں لوگوں کا خون کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کر لے تو ہٹلر بھی جنت میں آپ کے ساتھ جام نوش کر کررہا ہوگا اور حوروں کے مزے لے رہا ہو ہوگا؟ یہ کیسا انصاف ھے کہ توبہ آپ کو ہر طرح کے جرائم اور گناہوں سے پاک کر دے؟
مزید یہ کہ قدرت ان قوانین پر نہیں چلتی جن قوانین کی کسوٹی پر آپ انسانوں کے عمل کو پرکھ رہے ہیں جو کچھ ہٹلر سٹالن نے کیا ایسا ہی کچھ ایک شیر اپنی زندگی میں کرتا ھے جب وہ اپنے سے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا ھے اور انہیں مار ڈالتا ھے۔”گو“ ایک حملے میں ہزاروں چیونٹیاں کھا لیتا ھے ، hornet ایک حملے میں ہزاروں شہد کی مکھیوں کو قتل کر دیتا ھے ، وہیل مچھلی ایک وار میں لاکھوں plangtons کھا لیتی ھے۔اب کیا اللہ نے جانوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ کرے گا؟ کیا ہورنٹ ، وہیل اور گو کو دوزخ میں جگہ دے گا؟ کیا خدا اپنی کسی کتاب میں ایسا کہا بھی ھے؟
لا آف نیچر میں صرف سروائیول ھے کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔پھر یہ نیچر بے زبان جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ھے کیا آپکو معلوم نہیں؟ زیادہ تر جانور کسی کا شکار بنتے ہیں شازونادر ہی کوئی جانور طبعی موت مرتا ھے یا تو شکار ہو جاتا ھے یا کسی حادثے کا شکار موت کا مسلسل خوف کم خوراکی نیز قدرت کا انصاف یہی ھے کہ سروائیول ضروری ھے۔اگر قدرت وہسی ہی ہوتی جیسے آپ سمجھتے ہیں تو پھر اسکا اطلاق جانوروں پر بھی ہوتا۔
مذہب نے قدرت کو ایک طابع کے طور پر پیش کیا ھے جس میں خدا سب کچھ خود کرتا ھے لیکن جب فطرت کو سمجھا جائے تو پتا چلتا ھے کہ فطرت اپنے کام میں آزاد ھے۔اگر فطرت نا ہو تو خدا بھی کچھ نہیں کر سکتا۔خدا کسی انسان کو پیدا کرنے کے لئے مرد اور عورت کے دخول کا محتاج ھے۔انسان کو ختم کرنے کے لئے قدرتی آفات اور جراثیم کا پابند ہے۔جبکہ اگر خدا نہ ہو تب بھی انسان پیدا ہونگے ، مریں گے ، عمر کا حصہ گزاریں گے سوچیں گے۔نیز کسی مظہر میں خدا کا کوئی کردار نہیں۔
ایک قاتل کو ہم موت کی سزا دیتے ہیں۔کیا اس سے بڑی اور کوئی سزا ہو سکتی ھے کہ آپ کسی سے اسکا جینے کا حق چھین لیں؟ایک مرتا ہوا انسان زندگی پانے کے لئے اپنا سب کچھ دینے پر تیار ہو جاتا ھے۔کسی کی جان لینا ایک بہت بڑی سزا ھے جو ایک بڑے مجرم کو دنیا میں ہی ملتی ھے اور یہی قدرت کا انصاف ھے۔لیکن یہ انصاف یہیں ختم نہیں ہوتا قدرت ایسے شخص سے نہ صرف اس سے جینے کا حق چھین لیتی ھے بلکہ اسے تاریخ میں بھی عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ھے۔تاریخ میں ایسے لوگ برے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سزا سے ضرور بچ جاتے ہیں اور یہ نظام میں خامیوں کیوجہ سے ہوتا ھے جیسے جیسے انسان ارتقائی منازل طے کرتا جاتا ھے وہ ان خامیوں پر قابو پتا چلا جاتا ھے جس سے ہٹلر ، سٹالن ، اسامہ بن لادن ، خمینی ، نیرو ، چنگیز خان ، عدی امین ، vald dracula جیسے انسانیت کے مجرموں کا راستہ بند ہو جاتا ھے۔
یہ کہنا کہ مذہب ایسے لوگوں سے انصاف کرتا ھے غلط ھے ، اسلام کہتا ھے کہ اگر کوئی سچے دل سے اللہ کے حضور توبہ کر لے تو اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں چاہے وہ گناہ اور جرائم سمندروں سے بڑے ہی کیوں نہ ہوں۔اسی طرح عیسائیت میں اگر کوئی سچے دل سے Jesus کو اپنا savior مان لے تو اس کے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔۔۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہٹلر لاکھوں لوگوں کا خون کرنے کے بعد سچے دل سے توبہ کر لے تو ہٹلر بھی جنت میں آپ کے ساتھ جام نوش کر کررہا ہوگا اور حوروں کے مزے لے رہا ہو ہوگا؟ یہ کیسا انصاف ھے کہ توبہ آپ کو ہر طرح کے جرائم اور گناہوں سے پاک کر دے؟
مزید یہ کہ قدرت ان قوانین پر نہیں چلتی جن قوانین کی کسوٹی پر آپ انسانوں کے عمل کو پرکھ رہے ہیں جو کچھ ہٹلر سٹالن نے کیا ایسا ہی کچھ ایک شیر اپنی زندگی میں کرتا ھے جب وہ اپنے سے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا ھے اور انہیں مار ڈالتا ھے۔”گو“ ایک حملے میں ہزاروں چیونٹیاں کھا لیتا ھے ، hornet ایک حملے میں ہزاروں شہد کی مکھیوں کو قتل کر دیتا ھے ، وہیل مچھلی ایک وار میں لاکھوں plangtons کھا لیتی ھے۔اب کیا اللہ نے جانوروں کے ساتھ ہونے والے ظلم کا ازالہ کرے گا؟ کیا ہورنٹ ، وہیل اور گو کو دوزخ میں جگہ دے گا؟ کیا خدا اپنی کسی کتاب میں ایسا کہا بھی ھے؟
لا آف نیچر میں صرف سروائیول ھے کوئی اخلاقیات نہیں ہیں۔پھر یہ نیچر بے زبان جانوروں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ھے کیا آپکو معلوم نہیں؟ زیادہ تر جانور کسی کا شکار بنتے ہیں شازونادر ہی کوئی جانور طبعی موت مرتا ھے یا تو شکار ہو جاتا ھے یا کسی حادثے کا شکار موت کا مسلسل خوف کم خوراکی نیز قدرت کا انصاف یہی ھے کہ سروائیول ضروری ھے۔اگر قدرت وہسی ہی ہوتی جیسے آپ سمجھتے ہیں تو پھر اسکا اطلاق جانوروں پر بھی ہوتا۔
مذہب نے قدرت کو ایک طابع کے طور پر پیش کیا ھے جس میں خدا سب کچھ خود کرتا ھے لیکن جب فطرت کو سمجھا جائے تو پتا چلتا ھے کہ فطرت اپنے کام میں آزاد ھے۔اگر فطرت نا ہو تو خدا بھی کچھ نہیں کر سکتا۔خدا کسی انسان کو پیدا کرنے کے لئے مرد اور عورت کے دخول کا محتاج ھے۔انسان کو ختم کرنے کے لئے قدرتی آفات اور جراثیم کا پابند ہے۔جبکہ اگر خدا نہ ہو تب بھی انسان پیدا ہونگے ، مریں گے ، عمر کا حصہ گزاریں گے سوچیں گے۔نیز کسی مظہر میں خدا کا کوئی کردار نہیں۔
سوال نمبر 15 : الحاد کی روشنی میں مجھے میری زندگی کا مقصد بتا
دیں؟
جواب : الحاد کے نزدیک پیدائش کا مقصد اہم نہیں ، بلکہ یہ سوال اہم
ھے کہ جب ارتقاء کے نتیجے میں عقل و شعور پیدا ہو گیا ھے ، تو پھر اب اس عقل و
شعور کا مقصد کیا ہونا چاہئے، اسے کیسے استعمال کرنا چاہئے وغیرہ وغیرہ۔
انسان کی زندگی کا پہلے سے کوئی طے شدہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ زندگی کا مقصد انسان اپنی زندگی میں خود طے کرتا ھے۔
چنانچہ ملحد حضرات ارتقاء کے بعد عقل و شعور پانے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ اب مقصد یہ ھے کہ۔۔۔
انسان کی زندگی کا پہلے سے کوئی طے شدہ مقصد نہیں ہوتا بلکہ زندگی کا مقصد انسان اپنی زندگی میں خود طے کرتا ھے۔
چنانچہ ملحد حضرات ارتقاء کے بعد عقل و شعور پانے کے بعد یہ سوچتے ہیں کہ اب مقصد یہ ھے کہ۔۔۔
1 : انسانی زندگی کو زیادہ محفوظ بنانا۔
2 : زمین کے تمام انسانوں میں معاشی ناہمواری کو ختم کرنے مساوات
اخوت انصاف کو قائم کرنے کی جہدوجہد کرنا اور حالات کے مطابق بہتر سے بہتر ان میں
ترمیم کرتے چلے جانا۔
3 : جنگ و جدال نفرت و قتال کو ہر ممکن حد تک ختم کرنا۔
4 : ہر قسم کے ظلم کو ختم کرنا۔
5 : آزادی اظہار اختیار اور ہر انسان کی نجی زندگی میں عدم مداخلت
کو یقینی بنانا۔
6 : آنے والی نسلِ انسانی کو پہلے سے زیادہ خوش حالی دینا۔
7 : ہر ممکن حد تک جدید تعلیم کو عام کرنا۔
ہم سب انسان ہیں انسانیت کی بہتری کے لئے مثبت سوچیں۔ملحد اسطرح
سوچتے ہیں کیونکہ مذہب اور خدا انکا مسلہ نہیں ھے۔جہالت اور تاریکی سے پیدا ہونے
والے نظریات روشنی و علم سے مر جائیں گے۔
No comments:
Post a Comment