Saturday, September 24, 2016

INTELIGENT DESIGN AND DESIGNER


انٹیلیجنٹ ڈیزائن اور ڈیزائنر


تحریر : محمّد سلیم
ﷲ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مسلمان ہمیشہ سے ﷲ کی تخلیقات کو بطورِ ثبوت پیش کرتے رہے ہیں اور یہ وطیرہ مسلمانوں کا خود ساختہ نہیں بلکہ خود ربِّ کائنات بھی انسان کی اسی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔

قرآن ۔ سورہ البقرہ آیت 118
"
اور جو لا علم تھے وہ بولے ﷲ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمیں کوئی نشانی ملے ۔ ان سے پہلے کے لوگ بھی انہی کی مثل ایسا ہی کہتے تھے جو ان کے دلوں میں ہے ۔ بے شک ہم نے نشانیاں کھول دیں یقین والوں کے لئے ۔"

قرآن ۔ سورہ الملک ۔ آیت 3 ۔ 4
"
جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا ۔ تو رحمان کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے ؟ تو نگاہ اٹھا کر دیکھ ۔ تجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟ پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھ ۔ تیری نظر ناکام پلٹ آئے گی تھکی ماندی ۔"

قرآن ۔ سورہ الواقعہ ۔ آیت 57 تا 68
"
کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو۔ کیا تم اسے(آدمی بنا کر) پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم نے ہی تمہارے درمیان موت (کا نظام) مقرر کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں۔ کہ ہم تمہاری جگہ تم جیسے اور لوگ پیدا کر دیں اور تم کو ایسی صورت میں (یا ایسے عالَم میں) پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔ اور تم (اپنی) پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو پھر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ تم جو کچھ (بیج) بوتے ہو۔ کیا تم اس کو اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو (خشک کر کے) چُورا چُورا کر دیں تو تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ ہم پر تاوان پڑگیا۔ بلکہ ہم بالکل محروم ہو گئے۔"

ملحدوں کا اعتراض یہ ہے کہ جب ہر چیز ڈیزائن کی گئی اور ڈیزائنر خدا ہے تو اس خدا کا بھی تو ڈیزائنر کوئی نہ کوئی ہونا چاہئے ؟
یعنی منطق یہ ہے کہ یا تو خدا کے بھی ڈیزائنر کا اعتراف کر لیا جائے یا پھر مان لیا جائے کہ ہر چیز خودبخود وجود میں آتی چلی جا رہی ہے ۔ یعنی کائنات اتفاقی حادثے کے نتیجے میں خود بخود تخلیق ہو گئی ۔ انسان خود ہی پیدا ہو گیا ۔ ہر جاندار ۔ اور ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ ازخود تخلیق ہو گئی ۔
یہ وہ بات ہے جس سے ہم مسلمانوں کو اختلاف ہے ۔

پہلے خدا کی اس تعریف کو سمجھ لیتے ہیں جو مسلمانوں میں رائج ہے اور وہ تعریف یہ ہے ۔
کوئی بھی ایسی ہستی جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے ۔ یعنی نہ اس کا کوئی آغاذ ہو نہ کوئی انجام ۔ نہ وہ کسس سے جنا گیا ہو نہ ہی اس نے کسی سے جنم لیا ہو ۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہ ہو ۔

یہ ہے مسلمانوں کے خدا کی مختصر سی تعریف ۔

اب آجاتے ہیں ملحدوں کے اعتراض پہ ۔

کائنات ایک انتہائی پیچیدہ یا انٹیلیجنٹ ڈیزائن ہے اور اس کے لئے ایک ڈیزائنر کا ہونا ناگزیر ہے ۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ ملحدوں کا اعتراض یہ ہے کہ اس انٹیلیجنٹ ڈیزائن کا ڈیزائنر خود کتنا پیچیدہ ڈیزائن ہو گا اور اس کے لئے ڈیزائنر کا ہونا کیوں ضروری نہیں ؟
اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے کہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ کائنات کے بنانے والے کا بھی کوئی بنانے والا ہے ۔ تو کیا کائنات کا بنانے والا خدا کی اس تعریف پر پورا اترے گا جو میں نے اوپر پیش کی ؟ جی نہیں ۔ مگر پھر خدا کی تعریف پر وہ پورا اترے گا جو کائنات کے بنانے والے کا بھی بنانے والا ہو ۔ پھر اسے خدا سمجھا جائے گا ۔ مگر رکیئے ۔ ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا ۔ کیوں کہ شیطانی دماغ پھر کیا یہ نہ پوچھے گا کہ کائنات کے بنانے والے کا بنانے والا تو موجود ہے تو کیا اس کا بنانے والا نہ ہو گا ؟ وہ تو پھر اس سے بھی زیادہ عظیم ڈیزائن ہوا ۔ پھر ہمیں ایک قدم اور پیچھے جانا پڑے گا ۔
یہ ایک مسلسل اور لاحاصل سلسلہ رہے گا اس وقت تک جب تک انسان کسی مقام پر اپنے آپ کو روک کر کسی ایک ڈیزائنر کو خدا تسلیم نہ کر لے ۔ ورنہ تو جس بنانے والے کو بنانے والا موجود ہے تو پہلا بنانے والا تو خدائی منصب کی تعریف پر پورا اتر ہی نہیں سکتا ۔ المختصر یہ کہ جس مقام پہ ہم اس بحث کو ختم کریں گے اس مقام کی آخری ذات کو بحرحال ہمیں خدا تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔
اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں ۔ پہلا یہ کہ کائنات کی تخلیق سے متعلق جو واحد خدائی دعویٰ موجود ہے اسے اسی کے دعووں پر پرکھ لیا جائے ۔ جس تھیوری آف پروبیبلٹی کا فائدہ سائنس کو دیا جاتا ہے اسی تھیوری آف پروبیبلٹی پر خدا کو بھی پرکھ لیا جائے ۔ میں نے تو آج تک سائنس کو ہی قرآن کی تصدیق کرتے پایا ہے ۔ بلاشبہ اس تصدیق سے پہلے سائنس ہر دیوار پہ اپنا سر ضرور ٹکراتی ہے کہ حرام ہو جائے قرآن کو نہ ماننا پڑے مگر آخر آنا وہیں پڑتا ہے جس راستے کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے ۔ اسی کو زیرِ نظر رکھ کر تخلیقات کا جائزہ لیا جائے ۔
اور دوسرا یہ کہ ہر تخلیق کے خالق کا سرے سے انکار کر دیا جائے چاہے وہ انٹیلیجنٹ ڈیزائن ہو یا نان انٹیلیجنٹ ۔
اگر ہم دوسرے حل پر چلتے ہیں تو ہمارے پاس ناقابلِ حل سوالات کی ایک لمبی قطار ہے جس کا اظہار میں اپنی ایک پوسٹ "دین ۔ لادینیئت اور ہم جنس پرستی" میں کر چکا ہوں ۔
ہمیں ارتقاء کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ انسان جانور سے ارتقاء پزیر ہوا ۔ جانور پودوں اور پودے ایک یک خلوی جرثومے سے ۔ مگر سائنس کی گاڑی بھی یہاں آکر اٹک جاتی ہے کہ پہلی زندگی یعنی وہ یک خلوی جرثومہ کہاں سے آیا ؟ پھر ارتقاء کی تھیوری بذاتِ خود ایک انتہائی متنازعہ تھیوری ہے ۔ محض اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جوابات گھڑ لئے گئے ۔ مثلاً ارتقائی نظریے کے مطابق آبی جاندار خشکی کے جانداروں میں ارتقاء پزیر ہوئے مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ آبی جاندار خشکی پہ سانس لینے کے قابل کیسے ہوئے تو جواب ملتا ہے کہ آبی جانداروں اور خشکی کے جانداروں کے آباء مشترک تھے اور وہ گلپھڑوں اور پھیپھڑوں دونوں نعمتوں سے بہرہ مند تھے پھر جب خشکی کے جاندار خشکی پر آگئے اور پانی کے پانی میں رہ گئے تو خشکی کے جانداروں کے گلپھڑے بقائے اصلاح کے تحت غائب ہو گئے اور اسی طرح پانی کے جانداروں کے پھیپھڑے بھی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کے جو مشترک آباء تھے ان کے پھیپھڑے ارتقاء سے پہلے ہی بقائے اصلاح کی بھینٹ کیوں نہ چڑھ گئے ۔ وہ اس وقت بھی تو غیر ضروری تھے ؟ پھر مزید۔یہ کہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کی وضاحت نظریہ ارتقاء کرنے سے قاصر ہے ۔ مثلاً پھولوں کی مختلف خوشبوئیں ۔ پھلوں کے مختلف ذائقے ۔ دنیا میں پھیلی خوبصورتیاں ۔ تتلیوں میں بھرے دیدہ زیب رنگ ۔ ان تمام چیزوں کی وضاحت ارتقائی نظریہ میں اس طرح کی جاتی ہے کہ جس چیز کو ہم خوبصورت سمجھیں وہ ہمیں خوبصورت لگتی ہے ۔ یہ سوال سے جان چھڑانے والی بات ہے ۔ انسان جب عورت سے ہم بستری کرتا ہے تو اس عمل سے حاصل ہونے والی آخری لذت کیا ہمارے دماغ کا فتور ہے ؟ کوئی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ انسان بچے پیدا کرے ورنہ ضرورت تو محض ضرورت ہوتی ہے ۔ اس میں اس لذت کا کیا کام تھا ؟ کیا خودبخود پیدا ہو جانے والے انسان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ بغیر لذت کے بچے پیدا کر لیا کرتا ؟ یا بغیر ذائقے کے آم ۔ انار اور کھجور کھا کر طاقت حاصل کر لیا کرتا ؟
پھر ارتقائی نظریہ پر مجھے جو سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ بندر کو انسان میں ارتقاء پزیر ہونے کے لئے لاکھوں برس درکار ہیں مگر ایک قطرہ مادہ منویہ محض نو مہینے میں ارتقاء پزیر ہو کر جیتے جاگتے انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ کیا اس ارتقاء کی کوئی عقلی یا سائنسی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے ؟ زمین میں ایک چھوٹا سا بیج بوتے ہیں اور وہ درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے جس میں لکڑی بھی ہے چھال بھی پتے بھی اور شاخیں بھی ۔ کیا اس ننھے سے بیج میں یہ سب موجود تھا ؟
خدا کے انکار کا منکرین کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے ۔ کوئی ایسا عمل جو اوپر بیان کی گئی خدائی تعریف کے خلاف ہو ۔ اب وہ عمل کیا ہو ؟ ملحد عموماً خدا کے تخلیق کردہ کا سوال اٹھاتے ہیں ۔ مگر خدا کا آغاذ ثابت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ جو آغاذ بخشے گا وہ خود خدا کہلائے گا ۔ یعنی خدا ختم نہیں ہو گا بدل جائے گا ۔ دوسری صورت یہ کہ خدا کا فنا ثابت کیا جائے ۔ مگر یہاں ملحد اعتراض کریں گے کہ ہم جس کا وجود ہی نہیں مانتے اس کا فنا کیسے ثابت کریں ؟ تو سنیں ۔ خدا تو خدا کے نام لیواؤں کے دلوں میں بستا ہے ۔ دنیا کی جو دو تہائی آبادی خدا کی نام لیوا ہے اس کا مکمل خاتمہ ۔ اب چاہے یہ خاتمہ طاقت سے کیا جائے یا الحاد کی تبلیغ سے ۔ جیسے بھی ممکن ہو ۔ بڑا حوصلہ درکار ہے تپتی ریت پہ ننگی پیٹھ لیٹ کر ﷲ احد پہ قائم رہنے کے لئے ۔ طائف میں پتھر کھانے کے لئے ۔ جہاد کرنے کے لئے ۔ جو ملحد خوف کے مارے فیس بک پہ اپنا اصلی نام نہ بتا سکیں ان کے بس کا روگ نہیں ۔
خدا کے نام لیواؤں کو ختم کرنے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ۔ یہ کام خدا خود کرے گا جب دنیا ختم کرنی ہو گی ۔ مگر اس دن تو یہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا ۔ قیامت آجائے گی ۔

No comments:

Post a Comment