بسم اللہ الرحمن الرحیم
ملحدین نے ہمیشہ سے یونانی فلسفیوں کو بڑی قدر کی
نگاہ سے دیکھا ہے ۔ اور ہمیشہ اسلام اور اس کی تاریخ پر بہت زیادہ معترض نظر آتے
ہیں ۔ طرح طرح کے من گھڑت اشکالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
لیکن جب آپ ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تاریخ " معدوم ، اندازا ، تقریبا " سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے ثبوت اس تحریر میں آئندہ آئیں گے ۔ لیکن پہلے اسلام کا اصول سمجھ لینا ضروری ہے ۔۔۔۔ کہ اسلام کس چیز کو پسند کرتا ہے ۔
" عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں "
(( الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء عن عبد اللہ یقول بیننا و بین القوم القوائم یعنی الاسناد ))
اسناد دین میں داخل ہیں ۔ اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈاتا ۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان واسطے پائے جاتے ہیں یعنی اسناد "
(صحیح مسلم : 32)
یعنی دین اسلام میں وہ چیز قابل قبول ہو گی جس کی سند ہو گی ۔ اور سند کے راوی ثقہ ہوں گے ۔ جھوٹ نہ بولنے والے ۔ اٹکل پنچو سے کام نہیں لیتے ۔ ٹھیک ٹھیک بات کرتے ہیں ۔
سعد بن ابراھیم کہتے ہیں کہ
(( لا تحدث عن رسول اللہ ﷺ الا الثقات ))
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ثقات کی روایت سے لی جاتی ہے ۔
( صحیح مسلم : 31)
لیکن جب آپ ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تاریخ " معدوم ، اندازا ، تقریبا " سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے ثبوت اس تحریر میں آئندہ آئیں گے ۔ لیکن پہلے اسلام کا اصول سمجھ لینا ضروری ہے ۔۔۔۔ کہ اسلام کس چیز کو پسند کرتا ہے ۔
" عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں "
(( الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء عن عبد اللہ یقول بیننا و بین القوم القوائم یعنی الاسناد ))
اسناد دین میں داخل ہیں ۔ اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈاتا ۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان واسطے پائے جاتے ہیں یعنی اسناد "
(صحیح مسلم : 32)
یعنی دین اسلام میں وہ چیز قابل قبول ہو گی جس کی سند ہو گی ۔ اور سند کے راوی ثقہ ہوں گے ۔ جھوٹ نہ بولنے والے ۔ اٹکل پنچو سے کام نہیں لیتے ۔ ٹھیک ٹھیک بات کرتے ہیں ۔
سعد بن ابراھیم کہتے ہیں کہ
(( لا تحدث عن رسول اللہ ﷺ الا الثقات ))
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ثقات کی روایت سے لی جاتی ہے ۔
( صحیح مسلم : 31)
یعنی جو لوگ سچے ہوں ان کی بات کو قبول کیا جاتا ہے ۔ جھوٹے من گھڑت لوگوں کی بات کو دین میں قبول نہیں کیا جاتا ۔ یہی اسلام کا حسن ہے ۔
"ڈاکٹر موریس بو کائیے " لکھتے ہیں ۔
یہ بات اس حقیقت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جملہ احادیث کے لیے انتہائی مستند اور مقدس مجموعوں میں ہمیشہ ان حضرات کے نام شامل ہوتے ہیں جو ان احادیث کو روایت کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ نام پیچھے کی طرف سے اس شخص تک جا پہنچتے ہیں جس نے سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ معلومات حاصل کیں ۔ "
( بائیبل قرآن اور سائنس : ص 291)
اب آپ ملاحظہ کریں کہ فلاسفہ ملحدین کا طریقہ تحریر و تاریخ کیا ہے ۔۔۔۔
"" فیثا غورث """
برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ اس کا زمانہ 532 ق م تھا ۔
(فلسفہ مغرب کی تاریخ : ص 66 )
یاسر جواد لکھتا ہے تقریبا 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹونا میں رہنے لگا ( ایک سو عظیم فلسفی : ص 39)
نوٹ : بقول رسل 532 ق م میں پیدا ہونے والا صرف 2 سال کے فرق میں کسی کالونی کا شہری بنا اور تاریخ رقم کر لی گئی ؟ یعنی اس سے روایت کر دی گئی ؟
الفریڈو بئیر لکھتا ہے کہ
" فیثا غورث 570 ق م اور 580 ق م کے درمیان طالیس کی آیونیائی الاصل کا تو ساموس میں پیدا ہوا ۔۔۔
( دیکھیئے " تاریخ فلسفہ : ص 26 )
""" ارسطو """
ارسطو 384 ق م میں تھریس کی ساحلی بندرگاہ میں یونانی کالونی Stagison میں پیدا ہوا۔
( تاریخ فلسفہ یونانی : ص 37 ، از قلم : پروفیسر نعیم احمد )
یاسر جواد لکھتا ہے ۔۔
ارسطو 17 سال کی عمر میں افلاطون کی ایک اکیڈمی میں پڑھنے کی غرض سے گیا ۔ 347 ق م میں افلاطون کی وفات کے بعد وہ ایشیاء کوچک کے ایک شہر آسوس میں منتقل ہوا ۔ ( ایک سو عظیم فلسفی : ص 119 )
نوٹ : 17 سال کی عمر میں اس نے افلاطون کی اکیڈمی میں علم حاصل کرنا شروع کیا اور افلاطون کی وفات کا زمانہ 347 ق م پایا ۔ یہ معلوم ہی نہیں کہ ارسطو کس دور میں پیدا ہوا ۔ اور اس نے کس سن ق م میں اس کی اکیڈمی میں داخلہ لیا ۔ اگر سن وفات کے عرصہ میں 17 برس جمع کر دیئے جائیں تو 364 ق م سے زائد کا عرصہ بنتا ہی نہیں ؟ کیا مستند تاریخ اور سچائی پر مبنی شخصیات ان کو کہا جاتا ہے ۔ جن سے روایت کرنے والے اندازا اور تقریبا جیسے الفاظ سے اپنے پیشوائوں کی تاریخ رقم کرتے ہیں ؟؟ یاد رہے کہ ملحدین جو الزام مسلمانوں کی غیر مستند ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر الزام تراشی کرتے ہیں ۔ اس سے 100 ٪ زیادہ جھوٹی تاریخ
ان
یونانی فلسفیوں کی ثابت ہوتی ہے ۔
""ہیراقلیطس """"
اس کا زمانہ تقریبا 500 ق م کا ہے ۔ (پیدائش کا علم ہی نہیں کس سن میں ہوئی )
(برٹرینڈ رسل : فلسفہ مغرب کی تاریخ : ص 77 )
ڈیو جانس کے نزدیک اس کی پیدائش 535 سے 540 ق م ہے ۔
( مقالات فلسفہ : ازقلم ڈاکٹر وحید عشرت : ص 195 )
اب ذرا یاس جواد صاحب کا تاریخ رقم کرنے کا انداز دیکھیئے ۔۔۔
پیدائش 540 ق م ، وفات 480 ق م ، ملک یونان ، اہم کام : (معدوم )
(ایک سو عظیم فلسفی : ص 67)
نوٹ : یعنی ایک بندے کو آپ فلسفی کہتے ہیں ۔ اس کے حق میں بڑے بڑے لمبے قصیدے لکھتے ہیں ۔ پھر اس کی تعریفات کے پل باندھ کر آپ اس کے کارنامے من گھڑت بیان کرتے ہیں ۔ اور جب اہم کارناموں کی بات ہوتی ہے تو آپ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ " معدوم " یعنی کے اس کے کارناموں کا وجود ہی نہیں رہا ۔/۔۔۔۔
تو ہم یہ کیسے مان لیں کہ ہیرا قلیطس کا کوئی وجود بھی تھا ؟؟؟؟ کیا یہ ہے مغرب کے حکماء کی سچائی ؟؟؟؟؟؟
""" پارمینائیڈیز """
ڈاکٹر ویلہلم نیسل لکھتا ہے کہ اس کی پیدائش 520 ق م ہے ۔
ڈاکٹر نعیم احمد " فلسفہ یونان کی تاریخ " میں لکھتے ہیں کہ اس کی پیدائش 514 ق م ہے ۔
(مقالات فلسفہ : ص 182 )
یاسر جواد لکھتا ہے 515 ق م پیدائش(اندازا) ، 450 ق م وفات (اندازا) ملک یونان ۔
اہم کام :فطرت کے بارے میں( معدوم )
(ایک سو عظیم فلسفی : ص 71 ) اس پر ہسنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک بندہ ہیرو ہے ۔ پوچھا جائے اس نے کیا تو لکھا جائے معدوم ؟؟؟؟؟؟
"""" برٹرینڈ رسل """"
پارمینائڈز جنوبی اٹلی کے شہر اٹلی کا رہنے والا ہے وہ پانچویں صدی ق م کے نصف اول میں ہوا ہے ( جو کہ 501 سے 550 ق م کا درمیانی بنتا ہے ؟؟؟؟؟
ایسی غیر یقینی تاریخ جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ہے اس کے ماننے والوں کو سند ، نسب و رجل کے ثبوتوں سے بھرپور اور مستند تاریخ پر کیچر اچھالنا ایسا ہی ہے جیسے ہوا میں تھوک پھیکنا اور چاند پر بھونکنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
ازقلم عبدالسلام فیصل

No comments:
Post a Comment