Saturday, September 24, 2016

INTELIGENT DESIGN AND DESIGNER


انٹیلیجنٹ ڈیزائن اور ڈیزائنر


تحریر : محمّد سلیم
ﷲ کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے مسلمان ہمیشہ سے ﷲ کی تخلیقات کو بطورِ ثبوت پیش کرتے رہے ہیں اور یہ وطیرہ مسلمانوں کا خود ساختہ نہیں بلکہ خود ربِّ کائنات بھی انسان کی اسی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔

قرآن ۔ سورہ البقرہ آیت 118
"
اور جو لا علم تھے وہ بولے ﷲ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا ؟ یا ہمیں کوئی نشانی ملے ۔ ان سے پہلے کے لوگ بھی انہی کی مثل ایسا ہی کہتے تھے جو ان کے دلوں میں ہے ۔ بے شک ہم نے نشانیاں کھول دیں یقین والوں کے لئے ۔"

قرآن ۔ سورہ الملک ۔ آیت 3 ۔ 4
"
جس نے سات آسمان بنائے ایک کے اوپر دوسرا ۔ تو رحمان کے بنانے میں کیا فرق دیکھتا ہے ؟ تو نگاہ اٹھا کر دیکھ ۔ تجھے کوئی رخنہ نظر آتا ہے ؟ پھر دوبارہ نگاہ اٹھا کر دیکھ ۔ تیری نظر ناکام پلٹ آئے گی تھکی ماندی ۔"

قرآن ۔ سورہ الواقعہ ۔ آیت 57 تا 68
"
کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ جو نطفہ تم ٹپکاتے ہو۔ کیا تم اسے(آدمی بنا کر) پیدا کرتے ہو یا ہم پیدا کرنے والے ہیں۔ ہم نے ہی تمہارے درمیان موت (کا نظام) مقرر کیا ہے اور ہم اس سے عاجز نہیں ہیں۔ کہ ہم تمہاری جگہ تم جیسے اور لوگ پیدا کر دیں اور تم کو ایسی صورت میں (یا ایسے عالَم میں) پیدا کر دیں جس کو تم نہیں جانتے۔ اور تم (اپنی) پہلی پیدائش کو تو جانتے ہی ہو پھر نصیحت کیوں نہیں حاصل کرتے؟ کیا تم نے کبھی غور کیا ہے کہ تم جو کچھ (بیج) بوتے ہو۔ کیا تم اس کو اگاتے ہو یا ہم اگانے والے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو اس (پیداوار) کو (خشک کر کے) چُورا چُورا کر دیں تو تم باتیں بناتے رہ جاؤ۔ کہ ہم پر تاوان پڑگیا۔ بلکہ ہم بالکل محروم ہو گئے۔"

ملحدوں کا اعتراض یہ ہے کہ جب ہر چیز ڈیزائن کی گئی اور ڈیزائنر خدا ہے تو اس خدا کا بھی تو ڈیزائنر کوئی نہ کوئی ہونا چاہئے ؟
یعنی منطق یہ ہے کہ یا تو خدا کے بھی ڈیزائنر کا اعتراف کر لیا جائے یا پھر مان لیا جائے کہ ہر چیز خودبخود وجود میں آتی چلی جا رہی ہے ۔ یعنی کائنات اتفاقی حادثے کے نتیجے میں خود بخود تخلیق ہو گئی ۔ انسان خود ہی پیدا ہو گیا ۔ ہر جاندار ۔ اور ہر چیز جو ہم دیکھتے ہیں وہ ازخود تخلیق ہو گئی ۔
یہ وہ بات ہے جس سے ہم مسلمانوں کو اختلاف ہے ۔

پہلے خدا کی اس تعریف کو سمجھ لیتے ہیں جو مسلمانوں میں رائج ہے اور وہ تعریف یہ ہے ۔
کوئی بھی ایسی ہستی جو ہمیشہ سے ہو اور ہمیشہ رہے ۔ یعنی نہ اس کا کوئی آغاذ ہو نہ کوئی انجام ۔ نہ وہ کسس سے جنا گیا ہو نہ ہی اس نے کسی سے جنم لیا ہو ۔ اور اس کا کوئی ہمسر نہ ہو ۔

یہ ہے مسلمانوں کے خدا کی مختصر سی تعریف ۔

اب آجاتے ہیں ملحدوں کے اعتراض پہ ۔

کائنات ایک انتہائی پیچیدہ یا انٹیلیجنٹ ڈیزائن ہے اور اس کے لئے ایک ڈیزائنر کا ہونا ناگزیر ہے ۔ یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ ملحدوں کا اعتراض یہ ہے کہ اس انٹیلیجنٹ ڈیزائن کا ڈیزائنر خود کتنا پیچیدہ ڈیزائن ہو گا اور اس کے لئے ڈیزائنر کا ہونا کیوں ضروری نہیں ؟
اس کا بڑا سادہ سا جواب ہے کہ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے کہ کائنات کے بنانے والے کا بھی کوئی بنانے والا ہے ۔ تو کیا کائنات کا بنانے والا خدا کی اس تعریف پر پورا اترے گا جو میں نے اوپر پیش کی ؟ جی نہیں ۔ مگر پھر خدا کی تعریف پر وہ پورا اترے گا جو کائنات کے بنانے والے کا بھی بنانے والا ہو ۔ پھر اسے خدا سمجھا جائے گا ۔ مگر رکیئے ۔ ابھی یہ سلسلہ ختم نہیں ہو گا ۔ کیوں کہ شیطانی دماغ پھر کیا یہ نہ پوچھے گا کہ کائنات کے بنانے والے کا بنانے والا تو موجود ہے تو کیا اس کا بنانے والا نہ ہو گا ؟ وہ تو پھر اس سے بھی زیادہ عظیم ڈیزائن ہوا ۔ پھر ہمیں ایک قدم اور پیچھے جانا پڑے گا ۔
یہ ایک مسلسل اور لاحاصل سلسلہ رہے گا اس وقت تک جب تک انسان کسی مقام پر اپنے آپ کو روک کر کسی ایک ڈیزائنر کو خدا تسلیم نہ کر لے ۔ ورنہ تو جس بنانے والے کو بنانے والا موجود ہے تو پہلا بنانے والا تو خدائی منصب کی تعریف پر پورا اتر ہی نہیں سکتا ۔ المختصر یہ کہ جس مقام پہ ہم اس بحث کو ختم کریں گے اس مقام کی آخری ذات کو بحرحال ہمیں خدا تسلیم کرنا ہی پڑے گا ۔
اس مسئلے کے صرف دو ہی حل ہیں ۔ پہلا یہ کہ کائنات کی تخلیق سے متعلق جو واحد خدائی دعویٰ موجود ہے اسے اسی کے دعووں پر پرکھ لیا جائے ۔ جس تھیوری آف پروبیبلٹی کا فائدہ سائنس کو دیا جاتا ہے اسی تھیوری آف پروبیبلٹی پر خدا کو بھی پرکھ لیا جائے ۔ میں نے تو آج تک سائنس کو ہی قرآن کی تصدیق کرتے پایا ہے ۔ بلاشبہ اس تصدیق سے پہلے سائنس ہر دیوار پہ اپنا سر ضرور ٹکراتی ہے کہ حرام ہو جائے قرآن کو نہ ماننا پڑے مگر آخر آنا وہیں پڑتا ہے جس راستے کی طرف قرآن رہنمائی کرتا ہے ۔ اسی کو زیرِ نظر رکھ کر تخلیقات کا جائزہ لیا جائے ۔
اور دوسرا یہ کہ ہر تخلیق کے خالق کا سرے سے انکار کر دیا جائے چاہے وہ انٹیلیجنٹ ڈیزائن ہو یا نان انٹیلیجنٹ ۔
اگر ہم دوسرے حل پر چلتے ہیں تو ہمارے پاس ناقابلِ حل سوالات کی ایک لمبی قطار ہے جس کا اظہار میں اپنی ایک پوسٹ "دین ۔ لادینیئت اور ہم جنس پرستی" میں کر چکا ہوں ۔
ہمیں ارتقاء کا نظریہ یہ بتاتا ہے کہ انسان جانور سے ارتقاء پزیر ہوا ۔ جانور پودوں اور پودے ایک یک خلوی جرثومے سے ۔ مگر سائنس کی گاڑی بھی یہاں آکر اٹک جاتی ہے کہ پہلی زندگی یعنی وہ یک خلوی جرثومہ کہاں سے آیا ؟ پھر ارتقاء کی تھیوری بذاتِ خود ایک انتہائی متنازعہ تھیوری ہے ۔ محض اپنی بات کو سچ ثابت کرنے کے لئے جوابات گھڑ لئے گئے ۔ مثلاً ارتقائی نظریے کے مطابق آبی جاندار خشکی کے جانداروں میں ارتقاء پزیر ہوئے مگر جب ان سے پوچھا جائے کہ آبی جاندار خشکی پہ سانس لینے کے قابل کیسے ہوئے تو جواب ملتا ہے کہ آبی جانداروں اور خشکی کے جانداروں کے آباء مشترک تھے اور وہ گلپھڑوں اور پھیپھڑوں دونوں نعمتوں سے بہرہ مند تھے پھر جب خشکی کے جاندار خشکی پر آگئے اور پانی کے پانی میں رہ گئے تو خشکی کے جانداروں کے گلپھڑے بقائے اصلاح کے تحت غائب ہو گئے اور اسی طرح پانی کے جانداروں کے پھیپھڑے بھی ۔ مگر سوال یہ ہے کہ ان کے جو مشترک آباء تھے ان کے پھیپھڑے ارتقاء سے پہلے ہی بقائے اصلاح کی بھینٹ کیوں نہ چڑھ گئے ۔ وہ اس وقت بھی تو غیر ضروری تھے ؟ پھر مزید۔یہ کہ ایسی بہت سی چیزیں ہیں جن کی وضاحت نظریہ ارتقاء کرنے سے قاصر ہے ۔ مثلاً پھولوں کی مختلف خوشبوئیں ۔ پھلوں کے مختلف ذائقے ۔ دنیا میں پھیلی خوبصورتیاں ۔ تتلیوں میں بھرے دیدہ زیب رنگ ۔ ان تمام چیزوں کی وضاحت ارتقائی نظریہ میں اس طرح کی جاتی ہے کہ جس چیز کو ہم خوبصورت سمجھیں وہ ہمیں خوبصورت لگتی ہے ۔ یہ سوال سے جان چھڑانے والی بات ہے ۔ انسان جب عورت سے ہم بستری کرتا ہے تو اس عمل سے حاصل ہونے والی آخری لذت کیا ہمارے دماغ کا فتور ہے ؟ کوئی ہے جو یہ چاہتا ہے کہ انسان بچے پیدا کرے ورنہ ضرورت تو محض ضرورت ہوتی ہے ۔ اس میں اس لذت کا کیا کام تھا ؟ کیا خودبخود پیدا ہو جانے والے انسان کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ بغیر لذت کے بچے پیدا کر لیا کرتا ؟ یا بغیر ذائقے کے آم ۔ انار اور کھجور کھا کر طاقت حاصل کر لیا کرتا ؟
پھر ارتقائی نظریہ پر مجھے جو سب سے بڑا اختلاف ہے وہ یہ کہ بندر کو انسان میں ارتقاء پزیر ہونے کے لئے لاکھوں برس درکار ہیں مگر ایک قطرہ مادہ منویہ محض نو مہینے میں ارتقاء پزیر ہو کر جیتے جاگتے انسان میں تبدیل ہو جاتا ہے ۔ کیا اس ارتقاء کی کوئی عقلی یا سائنسی توجیہ پیش کی جا سکتی ہے ؟ زمین میں ایک چھوٹا سا بیج بوتے ہیں اور وہ درخت میں تبدیل ہو جاتا ہے جس میں لکڑی بھی ہے چھال بھی پتے بھی اور شاخیں بھی ۔ کیا اس ننھے سے بیج میں یہ سب موجود تھا ؟
خدا کے انکار کا منکرین کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے ۔ کوئی ایسا عمل جو اوپر بیان کی گئی خدائی تعریف کے خلاف ہو ۔ اب وہ عمل کیا ہو ؟ ملحد عموماً خدا کے تخلیق کردہ کا سوال اٹھاتے ہیں ۔ مگر خدا کا آغاذ ثابت کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ جو آغاذ بخشے گا وہ خود خدا کہلائے گا ۔ یعنی خدا ختم نہیں ہو گا بدل جائے گا ۔ دوسری صورت یہ کہ خدا کا فنا ثابت کیا جائے ۔ مگر یہاں ملحد اعتراض کریں گے کہ ہم جس کا وجود ہی نہیں مانتے اس کا فنا کیسے ثابت کریں ؟ تو سنیں ۔ خدا تو خدا کے نام لیواؤں کے دلوں میں بستا ہے ۔ دنیا کی جو دو تہائی آبادی خدا کی نام لیوا ہے اس کا مکمل خاتمہ ۔ اب چاہے یہ خاتمہ طاقت سے کیا جائے یا الحاد کی تبلیغ سے ۔ جیسے بھی ممکن ہو ۔ بڑا حوصلہ درکار ہے تپتی ریت پہ ننگی پیٹھ لیٹ کر ﷲ احد پہ قائم رہنے کے لئے ۔ طائف میں پتھر کھانے کے لئے ۔ جہاد کرنے کے لئے ۔ جو ملحد خوف کے مارے فیس بک پہ اپنا اصلی نام نہ بتا سکیں ان کے بس کا روگ نہیں ۔
خدا کے نام لیواؤں کو ختم کرنے کا اختیار انسان کے پاس نہیں ۔ یہ کام خدا خود کرے گا جب دنیا ختم کرنی ہو گی ۔ مگر اس دن تو یہ جھگڑا ہی ختم ہو جائے گا ۔ قیامت آجائے گی ۔

Saturday, September 10, 2016

UNANI PHILOSPHERS KI GHAIR MUSTANAD TARIKH





بسم اللہ الرحمن الرحیم 

ملحدین نے ہمیشہ سے یونانی فلسفیوں کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے ۔ اور ہمیشہ اسلام اور اس کی تاریخ پر بہت زیادہ معترض نظر آتے ہیں ۔ طرح طرح کے من گھڑت اشکالات پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ 
لیکن جب آپ ان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تاریخ " معدوم ، اندازا ، تقریبا " سے شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے ثبوت اس تحریر میں آئندہ آئیں گے ۔ لیکن پہلے اسلام کا اصول سمجھ لینا ضروری ہے ۔۔۔۔ کہ اسلام کس چیز کو پسند کرتا ہے ۔ 
" عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کہتے ہیں " 
(( الاسناد من الدین ولولا الاسناد لقال من شاء ماشاء عن عبد اللہ یقول بیننا و بین القوم القوائم یعنی الاسناد )) 
اسناد دین میں داخل ہیں ۔ اسناد نہ ہوتی تو ہر شخص جو چاہتا کہہ ڈاتا ۔ عبداللہ بن مبارک کہتے ہیں کہ ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان واسطے پائے جاتے ہیں یعنی اسناد " 
(صحیح مسلم : 32)
یعنی دین اسلام میں وہ چیز قابل قبول ہو گی جس کی سند ہو گی ۔ اور سند کے راوی ثقہ ہوں گے ۔ جھوٹ نہ بولنے والے ۔ اٹکل پنچو سے کام نہیں لیتے ۔ ٹھیک ٹھیک بات کرتے ہیں ۔ 
سعد بن ابراھیم کہتے ہیں کہ 
(( لا تحدث عن رسول اللہ ﷺ الا الثقات )) 
رسول اللہ ﷺ کی حدیث ثقات کی روایت سے لی جاتی ہے ۔ 
( صحیح مسلم : 31)
 
یعنی جو لوگ سچے ہوں ان کی بات کو قبول کیا جاتا ہے ۔ جھوٹے من گھڑت لوگوں کی بات کو دین میں قبول نہیں کیا جاتا ۔ یہی اسلام کا حسن ہے ۔ 
"ڈاکٹر موریس بو کائیے " لکھتے ہیں ۔ 

یہ بات اس حقیقت سے واضح ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی جملہ احادیث کے لیے انتہائی مستند اور مقدس مجموعوں میں ہمیشہ ان حضرات کے نام شامل ہوتے ہیں جو ان احادیث کو روایت کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ یہ نام پیچھے کی طرف سے اس شخص تک جا پہنچتے ہیں جس نے سب سے پہلے حضرت محمد ﷺ کے اہل بیت اطہار رضی اللہ عنھم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے یہ معلومات حاصل کیں ۔ "
( بائیبل قرآن اور سائنس : ص 291) 

اب آپ ملاحظہ کریں کہ فلاسفہ ملحدین کا طریقہ تحریر و تاریخ کیا ہے ۔۔۔۔ 

"" فیثا غورث """ 
برٹرینڈ رسل کہتا ہے کہ اس کا زمانہ 532 ق م تھا ۔ 
(فلسفہ مغرب کی تاریخ : ص 66 ) 
یاسر جواد لکھتا ہے تقریبا 530 قبل مسیح میں وہ جنوبی اٹلی میں ایک یونانی کالونی کروٹونا میں رہنے لگا ( ایک سو عظیم فلسفی : ص 39) 
نوٹ : بقول رسل 532 ق م میں پیدا ہونے والا صرف 2 سال کے فرق میں کسی کالونی کا شہری بنا اور تاریخ رقم کر لی گئی ؟ یعنی اس سے روایت کر دی گئی ؟
الفریڈو بئیر لکھتا ہے کہ 
" فیثا غورث 570 ق م اور 580 ق م کے درمیان طالیس کی آیونیائی الاصل کا تو ساموس میں پیدا ہوا ۔۔۔ 
( دیکھیئے " تاریخ فلسفہ : ص 26 ) 

""" ارسطو """
ارسطو 384 ق م میں تھریس کی ساحلی بندرگاہ میں یونانی کالونی Stagison میں پیدا ہوا۔
( تاریخ فلسفہ یونانی : ص 37 ، از قلم : پروفیسر نعیم احمد ) 
یاسر جواد لکھتا ہے ۔۔
ارسطو 17 سال کی عمر میں افلاطون کی ایک اکیڈمی میں پڑھنے کی غرض سے گیا ۔ 347 ق م میں افلاطون کی وفات کے بعد وہ ایشیاء کوچک کے ایک شہر آسوس میں منتقل ہوا ۔ ( ایک سو عظیم فلسفی : ص 119 ) 
نوٹ : 17 سال کی عمر میں اس نے افلاطون کی اکیڈمی میں علم حاصل کرنا شروع کیا اور افلاطون کی وفات کا زمانہ 347 ق م پایا ۔ یہ معلوم ہی نہیں کہ ارسطو کس دور میں پیدا ہوا ۔ اور اس نے کس سن ق م میں اس کی اکیڈمی میں داخلہ لیا ۔ اگر سن وفات کے عرصہ میں 17 برس جمع کر دیئے جائیں تو 364 ق م سے زائد کا عرصہ بنتا ہی نہیں ؟ کیا مستند تاریخ اور سچائی پر مبنی شخصیات ان کو کہا جاتا ہے ۔ جن سے روایت کرنے والے اندازا اور تقریبا جیسے الفاظ سے اپنے پیشوائوں کی تاریخ رقم کرتے ہیں ؟؟ یاد رہے کہ ملحدین جو الزام مسلمانوں کی غیر مستند ضعیف روایات کو بنیاد بنا کر الزام تراشی کرتے ہیں ۔ اس سے 100 ٪ زیادہ جھوٹی تاریخ 
ان یونانی فلسفیوں کی ثابت ہوتی ہے ۔ 

""ہیراقلیطس """" 

اس کا زمانہ تقریبا 500 ق م کا ہے ۔ (پیدائش کا علم ہی نہیں کس سن میں ہوئی ) 
(برٹرینڈ رسل : فلسفہ مغرب کی تاریخ : ص 77 ) 
ڈیو جانس کے نزدیک اس کی پیدائش 535 سے 540 ق م ہے ۔ 
( مقالات فلسفہ : ازقلم ڈاکٹر وحید عشرت : ص 195 ) 
اب ذرا یاس جواد صاحب کا تاریخ رقم کرنے کا انداز دیکھیئے ۔۔۔ 
پیدائش 540 ق م ، وفات 480 ق م ، ملک یونان ، اہم کام : (معدوم )
(ایک سو عظیم فلسفی : ص 67) 
نوٹ : یعنی ایک بندے کو آپ فلسفی کہتے ہیں ۔ اس کے حق میں بڑے بڑے لمبے قصیدے لکھتے ہیں ۔ پھر اس کی تعریفات کے پل باندھ کر آپ اس کے کارنامے من گھڑت بیان کرتے ہیں ۔ اور جب اہم کارناموں کی بات ہوتی ہے تو آپ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ " معدوم " یعنی کے اس کے کارناموں کا وجود ہی نہیں رہا ۔/۔۔۔۔
تو ہم یہ کیسے مان لیں کہ ہیرا قلیطس کا کوئی وجود بھی تھا ؟؟؟؟ کیا یہ ہے مغرب کے حکماء کی سچائی ؟؟؟؟؟؟ 

""" پارمینائیڈیز """ 

ڈاکٹر ویلہلم نیسل لکھتا ہے کہ اس کی پیدائش 520 ق م ہے ۔ 
ڈاکٹر نعیم احمد " فلسفہ یونان کی تاریخ " میں لکھتے ہیں کہ اس کی پیدائش 514 ق م ہے ۔ 
(مقالات فلسفہ : ص 182 ) 
یاسر جواد لکھتا ہے 515 ق م پیدائش(اندازا) ، 450 ق م وفات (اندازا) ملک یونان ۔ 
اہم کام :فطرت کے بارے میں( معدوم ) 
(ایک سو عظیم فلسفی : ص 71 ) اس پر ہسنے کے علاوہ کچھ نہیں ۔ ایک بندہ ہیرو ہے ۔ پوچھا جائے اس نے کیا تو لکھا جائے معدوم ؟؟؟؟؟؟ 

"""" برٹرینڈ رسل """"

پارمینائڈز جنوبی اٹلی کے شہر اٹلی کا رہنے والا ہے وہ پانچویں صدی ق م کے نصف اول میں ہوا ہے ( جو کہ 501 سے 550 ق م کا درمیانی بنتا ہے ؟؟؟؟؟ 
ایسی غیر یقینی تاریخ جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ہے اس کے ماننے والوں کو سند ، نسب و رجل کے ثبوتوں سے بھرپور اور مستند تاریخ پر کیچر اچھالنا ایسا ہی ہے جیسے ہوا میں تھوک پھیکنا اور چاند پر بھونکنا ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ازقلم عبدالسلام فیصل

Monday, August 29, 2016

KYA MUSALMAN MULHID BAN SAKTA HAI ?

اکثر ملحدین کہتے ہیں کہ وہ پہلے مسلمان تھے اور برسوں کی تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اللہ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے(معاذ اللہ).
میں کہتا ہوں کہ مسلمان ہونا تو دور کی بات تم نے تو بطور کافر بھی اسلام پر اعتراض اٹھانے واسطے کوئی قابل قدر تحقیق نہیں فرمائی آج تک. اور یہ فقط تم زندیقوں کا 

بغض اسلام ہے جس کی جلن تمہیں بے قرار رکھتی ہے اور اللہ اور اس کے دین کے بارے میں ہذیان بکتے رہتے ہو.
آئیے آپ احباب کو بھی ذرا ان خود ساختہ محققین کے چند چیدہ چیدہ ایسے اعتراضات دکھاتا ہوں جن کی بنیاد پر بقول ان کے یہ اسلام چھوڑ کر اللہ کے وجود کے 
انکاری ہو کر ملحد بن بیٹھے.
(بہتر طور پر سمجھنے کے لئے یہ بات ذہن میں رکھی جائے کہ ہر ملحد اللہ کے وجود کا انکاری ہوتا ہے)

اعتراض: قرآن میں کہیں زمین کو پہلے تخلیق کرنے کی بابت ذکر ہے اور کہیں آسمان کو, یکساں ترتیب نہ ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ ہے ہی نہیں.

میرا جواب: قرآن میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ زمین و آسمان باہم ملے ہوئے تھے جنہیں رب نے حکم دیا تو وہ جدا ہو گئے, اب ملی ہوئی چیز کو جب دو میں تقسیم کیا جاتا ہے تو تقسیم کرنے والے کی مرضی ہے کہ وہ جس کا چاہے پہلے ذکر کر دے اور جس کا بعد, ترتیب کے بدلنے سے خالق تبدیل نہیں ہوتا.
اب یہ سابقہ نام نہاد مسلمان اپنی عمر بھر کی تحقیق کے بعد بھی شائد یہی نہیں جان پائے کہ اللہ کو بطور خالق تسلیم کرنا ایمان ہے نہ کہ اس کی تخلیقات کی ترتیب کو.
اعتراض: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دوست کی نو سالہ بیٹی سے شادی کی, پس اللہ ہے ہی نہیں.
میرا جواب: یہ جو برسوں تم لوگوں نے تحقیق کی ہے تو کیا اتنا بھی نہیں جان پائے کہ اسلام میں دوست کی بالغ بیٹی سے نکاح کرنے کی کہیں بھی ممانعت نہیں ہے, چلو سائنس سے ہی ثابت کر دو کہ نو سال کی لڑکی بالغ نہیں ہو سکتی.
اور دوست کی نو سالہ بالغ بیٹی سے شادی کرنے کی بنیاد پر اللہ کا وجود کیسے ختم ہو جاتا ہے؟

اعتراض: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اشارہ کرنے پر چاند دو ٹکڑے ہو گیا, چونکہ ایسا محیر العقل واقعہ نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ کا کوئی وجود نہیں ہے.

میرا جواب: اگر تم کبھی مسلمان رہے ہوتے تو تمہیں نہ صرف علم ہوتا بلکہ تمہارا ایمان ہوتا کہ ان اللہ علی کل شئی قدیر, جو اللہ کچھ نہیں سے سب کچھ بنا سکتا ہے وہ 
اپنے بنائے ہوئے چاند کے دو تو کیا ہزار ٹکڑے کر کے بھی دوبارہ جوڑ سکتا ہے.
اعتراض: واقعہ معراج جھوٹ ہے, یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی انسان راتوں رات زمین سے آسمانوں پر جا کر واپس آ جائے, پس اللہ ہے ہی نہیں.
میرا جواب: ممکن تو یہ بھی نہیں ہے کہ تمہارے باپ کا سپرم اس کی پیشاب کی نالی میں سے گزر کر تمہاری ماں کی کوکھ میں جائے اور نو ماہ بعد تم دنیا میں جیتے جاگتے تشریف لے آو.
جو رب ایک گندے قطرے سے تمہیں تخلیق کرنے پر قادر ہے اس کے لئے بھلا کیا مشکل کہ اپنے رسول کو زمین سے آسماں پر لے جائے.

اعتراض: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے تمام بالغ مردوں کو قتل کروا دیا, اتنا شدید ظلم ہونے کا مطلب ہے کہ اللہ ہے ہی نہیں.

میرا جواب: اجی محقق صاحب ان یہودیوں نے خود اپنی مرضی کا منصف قائم کیا جس نے ان کی ہی کتاب سے ان کے قتل کا فیصلہ دیا, اور اس فیصلے کی بنیاد پر اللہ کے وجود کا انکار؟؟ چہ معنی دارد
فتح مکہ پر عفو و درگزر کا بیمثال واقعہ بھی پڑھ لیا ہوتا اپنی برسوں کی تحقیق کے دوران تو تمہیں یہ تو سمجھ آ جاتی کہ ان یہودیوں کی خطا کیوں ناقابل معافی تھی.
ویسے مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ تقریبا 1400 سال پہلے قتل ہونے والے یہودیوں کی بابت اتنی مرچیں تو یہودیوں کو نہیں لگتی جتنی کہ ملحدوں کو لگتی ہیں جن کا کسی مذہب سے کچھ لینا دینا ہی نہیں ہے.
کہاں تک سنو گئے کہاں تک سناوں....
یہ فقط چند مثالیں ہیں جن کو دیکھ کر ہی سمجھ آ جاتی ہے کہ یہ ملحدین کس درجہ کے مسلمان اور محقق رہے ہیں وہ بھی اگر یہ سچ ہے تو, کیونکہ...
AZ 

Friday, August 26, 2016

दुनिया में अत्याचार है इस लिए खुदा नहीं है ! ( उर्दू पोस्ट )ملحدین:دنیا میں ظلم ہے اسلیے خدا نہیں ہے۔


ملحدین:دنیا میں ظلم ہے اسلیے خدا نہیں ہے۔


11258478_1634386050131354_2497372638478848552_n

ہمارے خوش یا غمگین ہونے سے یہ حق نہیں بدلتا کہ زمین گول ہے. کسی پر ظلم ہو یا کسی کو اعزاز ملے ، اس سے یہ حق نہیں بدلتا کہ پانی حیات کے لیے ضروری ہے. ہمارے جذبات، احساسات یا حالات سے دنیا کا کوئی بھی حق تبدیل نہیں ہوتا. مگر
افسوس کہ جب بات سب سے اونچے حق یعنی مدبر کائنات کے وجود کی آتی ہے تو لوگ یہ کہہ کر انکار کر دیتے ہیں کہ میرا سارا پیسہ لٹ گیا اسلیے خدا نہیں ہے.
میری محبت مجھے چھوڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے. میری اولاد مجھ سے بچھڑ گئی اسلیے خدا نہیں ہے.
سری لنکا میں سیلاب یا نیپال میں زلزلہ آگیا اسلیے خدا نہیں ہے. حکومتی نااہلی سے تھر میں بچے مر گئے اسلئے خدا نہیں ہے…

پیارے سجنو .. الله کا وجود سب سے بڑا حق ہے اور اس کا ہونا ہمارے جذبات و حالات سے مشروط ہرگز نہیں ہے. آپ بھی اپنی عقل کو آواز دیں اور جس طرح دوسرے امور میں جذباتی ہوئے بناء کسی کے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ، ویسے ہی یہاں بھی مہربانی فرمائیں اور خالق کے ہونے کو عارضی حالات و واقعات سے مشروط نہ کریں .
اس دنیا میں مکمل انصاف کا تصور بھی ناممکن ہے. یہاں تو مشاہدہ یہ ہے کہ ظالم طاقت و اقتدار کے نشے میں چور رہتا ہے اور مظلوم، استبداد کی چکی میں پستا ہی جاتا ہے. یہاں اکثر حرام کھانے والا عیاشیوں کا مزہ لوٹتا ہے اور محنت کش پر زندگی کی بنیادی ضروریات بھی تنگ ہو جاتی ہیں. کتنے ہی مجرم، فسادی اور قاتل کسی عدالت کی پکڑ میں نہیں آتے…
ایک مثال لیں، اگر ایک بوڑھا شخص کسی نوجوان کو قتل کردیتا ہے اور مان لیں کہ وہ پکڑا بھی جاتا ہے. عدالت اسے اسکی جرم کی بنیاد پر سزائے موت بھی نافدکردیتی ہے. اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ انصاف ہے ؟ کہنے کو تو قاتل کو قتل کے بدلے میں قتل کردیا گیا ؟ مگر کیا یہی انصاف کی مکمل صورت ہے ؟
قاتل تو ایک بوڑھا شخص تھا ، جو اپنی زندگی گزار چکا تھا. جبکہ مقتول ایک نوجوان تھا ، اسکی پوری زندگی اسکے سامنے تھی. ممکن ہے کہ اسکی اچانک موت سے اسکی بیوی بے گھر ہوجائے ، اسکے یتیم بچے باپ کا سایہ نہ ہونے سے آوارگی اختیار کرلیں. کیا یہی حقیقی انصاف ہے؟
ظاہر ہے کہ نہیں. یہی وہ صورتحال ہے جو انسان میں یہ فطری و عقلی تقاضا پیدا کرتی ہے کہ کوئی ایسی دنیا و عدالت برپا ہو جہاں انصاف اپنے اکمل ترین درجے میں حاصل ہو. جہاں بد کو اسکی بدی کا اور نیک کو اسکی نیکی کا پورا پورا بدلہ مل سکے. دین اسی عدالت کی خبر روز حساب کے نام سے دیتا ہے اور اسی دنیا کی بشارت جنت و دوزخ سے دیتا ہے..
دین نے کبھی یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس دنیا میں سب کو انصاف حاصل ہوگا. بلکے وہ تو بتاتا ہے کہ اس دنیا کو امتحان کے اصول پر بنایا گیا ہے. لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کبھی تو قاتل صاف بچ نکلتے ہیں تو کبھی معصوم پھانسی چڑھ جاتے ہیں اور کبھی ظالم مظلوم کا استحصال کرتے ہیں. دراصل یہی وہ بے انصافی ہے جو انسان میں اس فطری تقاضے کو پیدا کرتی ہے کہ ایک ایسی دنیا کا وجود ضرور ہو جہاں ہر اچھے کو اسکی اچھائی اور ہر برے کو اسکی برائی کا پورا پورا بدلہ ملے. دین اسی نئی دنیا کی بشارت دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اس آنے والی دنیا میں انصاف کے تقاضے اپنی کامل ترین صورت میں نافذ ہونگے.۔۔
(جس پر اعتراض ہے اسکے موقف کو معترض پڑھنا اور سمجھنا ہی نا چاہیے ، اسکا اعتراض کیسے ختم ہوسکتا ہے)دین کے اس واضح اور کھلے مقدمے کے بعد بھی اگر کوئی الله کے وجود کا اسلیے انکار کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں فلاں جگہ بھوک، جنگ یا نا انصافی ہے تو یہ اسکی لاعلمی اور کج فہمی کا ثبوت ہے، جس پر اس سے ہمدردی سے زیادہ اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔۔
تحریر عظیم الرحمان عثمانی

कायेनात की हर चीज़ को खुदा ने बनाया तो खुदा को किस ने बनाया ? ( उर्दू पोस्ट )



علت اولی کی بحث (The First Cause Argument)



10885237_1610924145810878_2264324198040238856_n
سادہ ترین جواب اس سوال کا یہ ہے:
“چونکہ خدا، جیسا کہ اسے تعریف کیا گیاہے، خالقِ کائنات اور خالقِ زمان و مکان ہے، اس لیے لازم ہے کہ وہ اپنی مخلوق یعنی زمانہ کی جہت سے آزاد ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں۔ اور جس کی کوئی ابتدا نہیں اس کا نہ تو کوئی تخلیق کار ہے نہ کوئی علت۔”
یہ ایک عام اور سادہ جواب ہے جو بغیر کسی پیچیدہ بحث میں جائے ایک عام انسان کے لیے صد کفایت کا حامل ہے۔
کروڑوں لوگ اسی جواب پر مطمئن ہیں اور وہ اس سے آگے کسی تسلسل کو بے جا مانتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بھی ممکن نہیں کہ کائنات خود ہی بن جائے، اس میں یہ نظم و ضبط کے قوانین اپنے آپ ہی بن جائیں۔ مادہ اتنا شعور دار نہیں ہے کہ اپنے لیے خود ہی قوانین مقرر کرسکے۔ تو اس صورت میں ایک ہی جواب بنتا ہے کہ کائنات کو بنانے والا ایک خالقِ برتر ہے جو اسے قوانین کی ایک زنجیر میں باندھے ہوئے چلا رہا ہے۔ اور اس خدا سے بڑھ کر اوپر کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کی برتری سب پر حاوی اور غالب ہے۔
تاہم یہ سوال قدیم زمانوں سے منطقیین اور فلاسفہ میں ایک بڑا مسئلہ بن کر ابھرتا رہا ہے۔ اس پر بہت کچھ لکھا اور کہا بھی جاچکا ہے لیکن یہ ایسا مسئلہ ہے کہ جس میں دونوں ہی ایک دوسرے کو مطمئن کرنے سے قاصر ہیں۔ یہاں آکر انسانی عقل ایک عقیدہ کی محتاج ہوجاتی ہے جس میں عقلی دلائل دونوں ہی جانب کسی حتمی ثبوت کے حامل نہیں ہوتے۔
وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ کائنات کی ہر شے کو خدا نے بنایا اور خدا کو کسی نے نہیں بنایا ان پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اگر ہر شئے پر علت و معلول یا خالق ومخلوق کا قانون لگتا ہے تو خدا پر کیوں نہیں؟ اور جو مخالفین کہتے ہیں کہ کائنات اپنے آپ ہی بن گئی ہے ان پر یہ اعتراض ہے کہ مادہ میں شعور اور قوانین کی پابندی کہاں سے وجود میں آئی؟ غرض یہ کہ ہر دو فریقین کا دعوہ کسی مشاہداتی ثبوت کا حامل نہیں ہے۔
یہ اعتراض گو کہ بہت پرانا ہے، برٹرینڈ رسل نے اسے اپنے مضمون “Why I am not a Christian” میں بطور پہلے اعتراض کے پیش کیا ہے۔ اور غالباً اسی کے بعد ہر دوسرے ملحد اور معترض نے یہی سوال پوچھ کر خدا کے وجود پر یقین کرنے والے کو لاجواب کردینا اپنا شعار بنا لیا۔ رسل نے مِل (Mill) کی ذاتی سوانحِ عمری کے حوالے سے یہ بات نقل کی ہے کہ “مجھے کس نے بنایا؟” یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا کوئی جواب موجود نہیں۔ کیونکہ اس کے فوراً بعد یہ سوال آجاتا ہے کہ “خدا کو کس نے بنایا؟”۔ یہاں رسل نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ “پہلی علت” کا سارا مقدمہ ہی بے کار ہے۔ کیونکہ اگر ہر چیز کی کوئی علت ہے تو خدا کی بھی علت ہونا ضروری ہے۔ رسل نے یہاں جو بات بیان کی اس میں سب سے بڑا مغالطہ استدلال کے قضیے کی غلط بیانی تھی۔ یعنی “اگر ہر چیز کی علت ہے ۔۔۔۔۔۔ الخ” اصول تو یہ ہے کہ “ہر چیز جو وجود رکھنا شروع کرے، یا وقوع پذیر ہو، اس کی کوئی علت ہے”۔ اب خدا، جیسا کہ اسے تعریف کیا گیا ہے اس کے مطابق خدا نے وجود رکھنا کبھی “شروع” نہیں کیا۔ کیونکہ وہ ازل سے ہے اس لیے اس کی کوئی شروعات نہیں۔ اب استخراجی طور پر خدا کی تعریف کے مطابق اسے علت کی اس لیے ضرورت نہیں کیونکہ وہ (خدا) کبھی وقوع پذیر نہیں ہوا، یا اس نے کسی دور میں وجود رکھنا شروع نہیں کیا۔ اس لیے یہ اصول اس تعریف کردہ خدا کی ذات پر عقلی طور پر بھی لاگو نہیں ہوتا۔
در اصل جب ہم یہ مان کر چل رہے ہوتے ہیں کہ “ہروقوع پذیر ہونے والی شئے کی کوئی علت موجود ہے” تو یہ اور اس جیسے دوسرے سوالات منطق اور فلسفہ میں یہ طے کرنے کے لیے کیے جاتے ہیں کہ کیا کوئی پہلی علت ممکن بھی ہے؟ ایسے سوالات میں دورِ قدیم و جدید کے فلاسفہ نے بہت ٹھوکریں کھائی ہیں۔ ہر کسی نے اپنی اپنی تعریفات اور توجیہات کو پیش کیا ہے۔ مذکورہ بالا برٹرینڈ رسل کی مثال دینے کا مقصد یہی ہے کہ اگر علت و معلول کو مانا جائے اور پہلی علت کو نہ مانا جائے تو ایک قسم کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں، جبکہ دوسری جانب اگر علت و معلول کا سرے سے انکار کردیا جائے تو دوسرے قسم کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ رسل زیادہ سے زیادہ وہی کچھ کہنے میں حق بجانب تھے جو مِل نے کہا تھا۔ یعنی ایسے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن انہوں نے اپنے استدلال کو قوی کرنے کے لیے آگے یہ بات بھی کہہ دی کہ اگر کوئی بھی چیز بغیر علت کے ہوسکتی ہے جسے ہم خدا کہتے ہیں تو وہ کائنات ہی کیوں نہیں؟ کائنات کو ازلی کہنے میں دقت ہے؟
اتفاق کی بات یہ ہے کہ جس دور میں رسل کا یہ مضمون لکھا گیا ہے تقریباً اسی دور میں بگ بینگ کا نظریہ وجود میں آرہا تھا۔ جس کے آنے کے بعد یہ تو معلوم ہوگیا کہ یہ کائنات کم از کم ازلی تو نہیں ہے۔ بعد میں کائنات کی عمر وغیرہ کا بھی اندازہ لگا لیا گیا۔ یہ استخراجی نہیں بلکہ ایک استقرائی نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون نے اس بات کی مزید تائید کی کہ کائنات ازل سے نہیں بلکہ کسی خاص وقت میں وجود میں آئی ہے۔ اس لیے یہ تو طے ہوا کہ کائنات پہلی علت نہیں ہے۔ کیونکہ کائنات پر خود ہی علت و معلول کا قانون لائقِ اطلاق ہے۔
اگلا مرحلہ منطق میں جدید ترقی کی صورت میں سامنے آیا۔ شروعات تو اس کی کافی پہلے سے ہوچکی لیکن اصل قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ منطق کو کسی بھی صورت میں لسانی مجبوریوں سے آزاد کیا جائے۔ اس میں انسان کو کافی حد تک کامیابی ہوئی۔ یہ وہ نقطہ تھا جہاں انسان نے منطقی محالات اور چیستانوں کی الجھی ہوئی گتھیوں کو سلجھانے کے لیے ایک نئے طریقے سے آغاز کیا۔
آخر وہ وقت بھی ۱۹۳۰ کی دھائی کے آخر میں ہی آگیا جب کرٹ گرڈل (Kurt Godel) نے منطقی جبر اور منطقی چیستانوں کی ایک اہم گتھی سلجھا دی۔ گرڈل نے اس ضمن میں ریاضیاتی منطق کے تحت دو تھیورم پیش کیے جنہوں نے سائنس، پروگرامنگ اور فلسفہ پر ایک بہت گہرا اثر چھوڑا۔
میں یہاں ان تھیورمز کو آسان الفاظ میں پیش کرنے کی جسارت کروں گا اور کوشش کروں گا کہ دقیق اصطلاحات سے حتی المقدور پرہیز کیا جائے۔
گرڈل کا پہلا تھیورم یہ کہتا ہے کہ کوئی بھی مطابقت کی دنیا (consistent system) جس میں بنیادی ارتھمیٹکس ممکن ہو، ہمیشہ ناتمام رہتی ہے۔
دوسرے تھیورم کے مطابق کسی بھی مطابقت کی حامل دنیا میں رہتے ہوئے اس کی مطابقت کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔
یہاں چند نکات یوں بنتے ہیں:
1۔ کوئی بھی مطابقت کی دنیا ناتمام ہوگی۔ یعنی اس خاص دائرے میں ایسے بہت سے مسائل( یا کم از کم ایک مسئلہ) پیدا ہوں گے جنہیں ثابت نہیں کیا جاسکے گا جبکہ وہ درست بھی ہوں۔
2۔ کسی بھی دنیا میں اگر تمام مسائل کا حل موجود ہوگا تو وہ مکمل تصور کی جائے گی۔ اور اس تکمیل کے باعث اس میں “عدم مطابقت” ضروری ہوگی۔
3۔ اگر کسی بھی دنیا کی مطابقت کو اسی دنیا میں رہتے ہوئے ثابت کیا جاسکے تو وہ پھر” مکمل” تصور کی جاسکتی ہے۔ اور ایسے میں یہ دنیا پھر “عدم مطابقت” پر پہنچ جائے گی۔
نوٹ: یہاں دنیا سے مراد عام مفہوم کی دنیا نہیں بلکہ ایک خاص سسٹم، یا قضایا کی ایک خاص حد یا علم کا کوئی بھی خاص دائرہ ہے۔ یہ ایک ایٹم سے لے کر پوری کائنات کو محیط بھی ہوسکتا ہے۔ اور استخراجی منطق کا کوئی خاص استنتاج بھی۔
گرڈل نے جہاں ریاضی دانوں کو ایک راہ ہموار کرکے دی وہاں فلاسفہ کو بھی ایک نئی راہ مل گئی اور کئی پہیلیاں سلجھ گئیں۔ مثلاً اگر کوئی کہے “میں جھوٹ بول رہا ہوں”۔ تو یہ جملہ متناقضہ (paradoxical) ہے۔ یعنی اگر اس جملے کو سچ مانا جائے تو وہ جھوٹ بول رہا ہے، اور جھوٹ مانا جائے تو سچ بول رہا ہے۔ یا پھر یہ کہ “کائنات میں سب کچھ جھوٹ ہے”۔ اگر اسے سچ مانا جائے تو یہ جملہ بھی اپنا شکار ہو کر جھوٹ ہوجاتا ہے۔ الغرض ایسے جملے خود ہی اپنی طرف اشارہ کر رہے ہوتے ہیں جو گرڈل سین ٹینسز (گرڈلی جملے) کہلاتے ہیں۔
دونوں تھیورم کے مجموعی اطلاق کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ جن میں کمپیوٹر سائنس، نیورو سائنس، فزکل سائنسز، ریاضی اور منطق وغیرہ شامل ہیں۔
نظری طبیعات (Theoretical Physics) کے مشہور سائنس دان سٹیون ہاکنگ (Stephen Hawking) نے گرڈل کے ان تھیورمز کے ضمن میں طبیعات کے حوالے سے حیرت انگیز انکشافات کیے ہیں جس میں ان کا اخذ کردہ نتیجہ یہ ہے کہ انسان کائنات کا حصہ ہے اور اس میں رہتے ہوئے نوعِ انسان قوانین کے کسی محدود عدد کی صورت میں کائنات کی کوئی حتمی تشریح کبھی نہیں کرسکے گا۔ نوعِ انسان کی یہ دوڑ کبھی ختم نہیں ہوسکے گی۔ ہمیشہ نئے قوانین کی دریافت طبیعات دانوں کی منتظر رہے گی۔ اور ریاضی دان اپنے دھندوں میں ہمیشہ لگے رہیں گے۔
یہاں ایک بات یہ سمجھ لیجیے کہ قوانین جو کائنات کے اندر پائے جاتے ہیں وہ چاہے کتنی ہی مطابقت رکھتے ہوں، اور بظاہر کتنے ہی حتمی لگتے ہوں،وہ بہر حال اضافی ہوتے ہیں۔ کائنات کے اندر کسی بھی مطابقت کاحامل قانون کائنات کے دائرے میں رہتے ہوئے کبھی ثابت نہیں ہوسکتا۔ اسے کہیں نہ کہیں ٹوٹنا ضرور پڑے گا۔ ورنہ وہ نامکمل ہی رہے گا۔ اور جب تک نا مکمل رہے گا تب تک اس میں مطابقت پائی جاتی رہے گی۔
ایک آسان سی مثال لیجیے۔ ہم قانون بقائے مادہ یا توانائی کے تحت جانتے ہیں کہ مادہ یا توانائی نہ تو فنا ہوسکتے ہیں، نہ بنائے جاسکتے ہیں۔ یہ قانون تب تک نا مکمل ہے جب تک اس بات کا جواب نہیں مل جاتا کہ مادہ یا توانائی کی شروعات کہاں سے ہوئی؟ یا پھریہ کہ کیا مادہ اور توانائی کبھی بنے بھی ہیں یا نہیں؟ جواب دونوں سوالوں کا اس قانون کے تحت میں نہیں دیا جاسکتا۔ کیونکہ عام منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اگر مادہ یا توانائی بن نہیں سکتے تو پھر ان کا کوئی نقطۂ آغاز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ مادہ ازل سے نہیں ہے، تو اس منطقی تضاد کا جواب دینے کے لیے ایسی دنیا میں جانا ہوگا جو ان قوانین کی پاسداری سے اوپر ہو۔ جہاں سے اس قانون کی ابتدا ہوئی ہو۔ ایسی دنیا اکثر ہمارے مشاہدے میں ہوتی بھی ہے اور نہیں بھی ہوتی۔ بعض وقت ہمارے مشاہدے میں بیک وقت بہت سی دنیائیں ہوتی ہیں جو بذاتِ خود مطابقت کی حامل ہوتی ہیں لیکن ہم چونکہ ان سے اوپر ہوتے ہیں تو اس مطابقت کی نفی بھی ہمارے مشاہدے میں ہوتی ہے۔
علت و معلول اور اس پر علتِ اولی کے اعتراض کی بھی یہی حقیقت ہے۔ پہلی علت کا انکار کرنے والے در اصل اسی منطقی تضاد کی وجہ سے اس بات کا انکار کرتے ہیں کہ کوئی پہلی علت موجود ہوسکتی ہے۔ حالانکہ گرڈل کے تھیورمز کے بعد یہ مسئلہ اور اس میں پایا جانے والا منطقی تضاد کسی اہمیت کا حامل نہیں رہتا۔ اگر کائنات کے اندر موجود رہ کر پہلی علت کا ثبوت دیا جاسکے تو یہ قانون مکمل تو ہوسکتا ہے لیکن اس میں مطابقت کی کیفیت برقرار نہیں رہے گی۔ اور اگر ثابت کرنا ہے تو اس کے لیے کسی ایسے سسٹم کو ڈھونڈنا ہوگا جو اس قانون سے بالا تر ہو۔ جہاں سے اس قانون کی تمام جہات کو دیکھا جاسکے۔ ایسا کرنے کے لیے یا تو زمانے سے اوپر جانا ہوگا جہاں علت و معلول بیک وقت ہی رونما ہورہے ہوں۔ یا پھر ایسی دنیا میں جہاں علت و معلول کی نفی اور اثبات دونوں پائے جاتے ہوں۔
اس وقت تک کسی بھی چیز کا انکار کردینا مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ اس سسٹم میں علت و معلول کا ثابت نہ کیا جاسکنا در اصل اس کی نفی نہیں ہے بلکہ بات صرف اتنی سی ہے کہ اس کا اثبات اس سسٹم میں رہتے ہوئے نہیں ہوسکتا۔ لیکن ہو ضرور سکتا ہے۔ اس سسٹم میں نہیں تو کہیں اور۔ لیکن اگر اسکا اثبات کہیں نہیں ہوسکتا تو اس کا مشاہدہ بھی کہیں نہیں ہوسکتا۔ لیکن یہ بات خلافِ واقعہ ہے۔ چونکہ اس کا مشاہدہ موجود ہے تو اسکا اثبات بھی ضرور موجود ہے۔
مزمل شیخ بسمل